سچ خبریں:وال سٹریٹ جرنل نے لکھا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تیل اور یمن کی جنگ پر اختلافات زیادہ وسیع ہو گئے ہیں جس کے بعد ابوظہبی اوپیک سے نکلنے کا سوچ رہا ہے۔
چند ماہ قبل جب ابوظہبی نے مشرق وسطیٰ کے ممالک کے رہنماؤں کی میزبانی کی جس میں ایک شخصیت غائب تھی اور وہ تھے سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان جبکہ جنوری میں ہونے والے ابوظہبی اجلاس سے ایک ماہ قبل متحدہ عرب امارات کے اعلیٰ حکام نے ریاض میں چین-عرب ورلڈ میٹنگ میں شرکت نہیں کیا، خلیج فارس کے ممالک کے حکام نے وال سٹریٹ جرنل کو بتایا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زائد آل نہیان اور محمد بن سلمان کی ایک دوسرے کی میزبانی میں منعقد ہونے والی تقریبات میں غیر موجودگی ایک دانستہ عمل ہے جو متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے درمیان کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو ظاہر کرتا ہے۔
اس اخبار کے مطابق اگرچہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو اب بھی اپنا اتحادی سمجھا جاتا ہے لیکن ان کے درمیان کئی شعبوں میں اختلاف رائے ہے، جس کی جڑیں دونوں ممالک کے درمیان غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور تیل کی عالمی منڈیوں میں اثر و رسوخ بڑھانے کے مقابلے نیز یمن جنگ کے دوران اختلافات تک جاتی ہیں،وال سٹریٹ جرنل کے تجزیے کے مطابق یہ اختلافات جو کبھی صرف پس پردہ حلقوں تک محدود تھے، رفتہ رفتہ مزید عام ہو گئے ہیں جس سے خلیج فارس کے خطے میں اتحاد کو دوبارہ ترتیب دینے کا خطرہ لاحق ہو گئے ہیں،وہ بھی ایسے وقت میں جب ایران خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے قومی سلامتی کے مشیر شیخ طحنون بن زائد آل نہیان جو اس ملک کے صدر کے قریبی عہدیداروں میں شمار ہوتے ہیں، محمد بن سلمان سے ملاقات کے لیے کئی بار سعودی عرب جا چکے ہیں لیکن وہ تناؤ کم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے، کم از کم ایک بار ابوظہبی میں جنوری میں ہونے والی ملاقات کے بعد شیخ طحنون کو بن سلمان سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی، یاد رہے کہ دونوں فریقوں میں سب سے بڑا اختلاف یمن پر ہے، جہاں سعودی اور اماراتی 2015 سے یمن کی انصار اللہ کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک فوجی اتحاد کی قیادت کر رہے ہیں، یہ جنگ یمن کے بنیادی ڈھانچے کی تباہی اور اس عرب ملک میں غربت، بے روزگاری اور وبائی امراض کے پھیلاؤ کا باعث بنی ہے،ان حملوں کے آغاز سے اب تک دسیوں ہزار یمنی شہری شہید اور زخمی ہو چکے ہیں،تاہم 2019 میں متحدہ عرب امارات نے یمن سے اپنی زیادہ تر زمینی افواج کو واپس بلا لیا۔
خلیجی حکام نے وال سٹریٹ جرنل کو بتایا ہے کہ جہاں سعودی عرب جنگ کے خاتمے کے لیے انصار اللہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کر رہا ہے،وہیں متحدہ عرب امارات کو تشویش ہے کہ یمن کے مستقبل پر بات چیت اسے کنارے لگا دیا جائے گا، وال اسٹریٹ جرنل سے حکام کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات یمن کے جنوبی ساحل اور بحیرہ احمر پر اپنی اسٹریٹجک پوزیشن برقرار رکھنا چاہتا ہے تاکہ اپنی بندرگاہوں سے دنیا کے دیگر حصوں تک سمندری راستوں کی حفاظت کو برقرار رکھا جاسکے،اس کے علاوہ، متحدہ عرب امارات بحیرہ احمر کے جنوبی سرے پر آبنائے باب المندب کے ایک جزیرے پر ایک فوجی اڈہ اور ہوائی اڈے کا رن وے قائم کرنا چاہتا ہے، تاہم سعودی حکام نجی حلقوں میں متحدہ عرب امارات کے ان منصوبوں کی مخالفت کرتے ہیں، سعودیوں کا خیال ہے کہ اماراتی منصوبہ ان کی 800 میل لمبی سرحد کو محفوظ بنانے اور انصار اللہ کے ڈرون اور میزائل حملوں کو روکنے پر مبنی ریاض کے اہداف کے خلاف ہے ۔
خلیج فارس کے حکام کا کہنا ہے کہ سعودیوں نے عرب اتحاد کی سوڈانی افواج کو امارات کی کاروائیوں کے قریب کے علاقوں میں تعینات کر دیا ہے جبکہ اماراتی سعودی عرب کے اس اقدام کو انہیں دھمکانے کا حربہ سمجھتے ہیں، دسمبر میں جب شیخ محمد نے ریاض میں ہونے والے اجلاس میں شرکت سے انکار کیا تو سعودی حکام نے اسے یمن میں متحدہ عرب امارات کی ناراضگی کی علامت سے تعبیر کیا۔ اس ملاقات میں شیخ محمد کے بجائے فجیرہ کے حاکم موجود تھے۔
یاد رہے کہ دنیا کے دو سب سے بڑے تیل پیدا کرنے والے ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان توانائی کے مسائل پر بھی اختلافات ہیں،اوپیک کے اندر، متحدہ عرب امارات اپنی صلاحیت سے بہت کم تیل پیدا کرنے کا پابند ہے جبکہ وہ ایک عرصے سے اپنی پیداوار بڑھانے کا مطالبہ کر رہا ہے لیکن سعودی عرب نے ہمیشہ اس معاملے کی مخالفت کی ہے جس کے بعد اب متحدہ عرب امارات کے حکام نے کہا ہے کہ ان کا ملک اوپیک سے نکلنے کے لیے اندرونی مشاورت کر رہا ہے جبکہ یہ کارروائی اس آئل کارٹیل کو بہت بڑا جھٹکا دے سکتی ہے اور تیل کی عالمی منڈیوں میں اس کی طاقت کو کمزور کر سکتی ہے، ید رہے کہ گزشتہ اکتوبر میں ہونے والے اوپیک پلس کے اجلاس میں اماراتیوں کا سعودی عرب کے ساتھ تنازع ہو گیا،اس میٹنگ میں اوپیک پلس نے تیل کی قیمتوں میں اضافے کے لیے اپنی پیداوار میں نمایاں کمی کرنے کا فیصلہ کیا جس سے امریکہ میں شدید عدم اطمینان ہوا۔
یاد رہے کہ اکتوبر میں اوپیک + کے اجلاس سے پہلے کے مہینوں میں اور یوکرین پر روس کے حملے کے بہانے مغرب اور ماسکو کے درمیان کشیدگی میں اضافے کے بعد، یورپی ممالک اور امریکہ نے تیل اور گیس برآمد کرنے والے ممالک کی پیداوار بڑھانے کی کوشش کی تاکہ کسی نہ کسی طرح روسی توانائی کی برآمدات میں کمی کا مقابلہ کرتے ہوئے توانائی کے بحران پر قابو پالیں،تاہم، تیل کی پیداوار میں کمی کے OPEC+ کے حتمی فیصلے نے ان کوششوں کو بہت بڑا دھچکا پہنچایا، وال اسٹریٹ جرنل لکھتا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے ظاہری طور پر اوپیک + اقدام کی حمایت کی لیکن سعودی حکام کا کہنا ہے کہ اماراتیوں نے انہیں پردے کے پیچھے میٹنگوں میں بتایا کہ وہ واشنگٹن کی درخواست کے مطابق تیل کی مزید پیداوار چاہتے ہیں، تاہم سعودی عرب نے اس درخواست کو مسترد کر دیا جس کے بعد سے متحدہ عرب امارات نے OPEC+ کو مزید تیل پیدا کرنے پر راضی کرنے کی کوششیں شروع کر رکھی ہیں۔