سچ خبریں:پشاور میں پیش آئے دل دہلا دینے والے واقعے نے جہاں 90 سے زائد بے گناہ نمازیوں کو شہید اور سینکڑوں دیگر کو موت کے گھاٹ اتار دیا ،وہیں ایک بار پھر پاکستان میں دہشت گردی کے مسئلے کی گہرائی کو ظاہر کیا ہے، ایک ایسا مسئلہ جس کا سامنا اس ملک کے عوام کو کئی دہائیوں سے کرنا پڑ رہا ہے اور اب بھی اس قوم کے لیے ان دکھوں اور تکالیف کے خاتمے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔
پشاور کے انتہائی حساس، محفوظ اور”ریڈ زون”کہے جانے والے علاقے میں واقع ایک مسجد میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائی میں تقریباً 400 نمازیوں کو نشانہ بنایا گیا ، تازہ ترین تفصیلات کے مطابق اس دہشت گردانہ دھماکے میں شہید ہونے والوں کی تعداد 90 ہو گئی اور 70 سے زائد زخمی ہیں،یاد رہے کہ ابھی تک کسی گروپ نے اس دہشت گردانہ کارروائی کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے،اگرچہ میڈیا کے بعض ذرائع نے تحریک طالبان پاکستان دہشت گرد گروہ کے ایک رکن کا حوالہ دیا ہے جس نے دعویٰ کیا تھا کہ خودکش دھماکہ اسی گروپ کا کام تھا، تاہم پاکستانی طالبان کے اہم رہنماؤں نے اس حوالے سے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
واضح رہے کہ پشاور کی مسجد میں خودکش حملے کی عالمی سطح پر مذمت بھی ہوئی ہے، اسلامی جمہوریہ ایران ، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور لبنان کی حزب اللہ نے اس دہشت گردانہ کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہوئے پاکستان کی حکومت اور عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے، اس کے علاوہ ترکی، افغانستان، رومانیہ، سعودی عرب اور امریکہ سمیت کئی دیگر ممالک نے بھی پشاور واقعے کی مذمت میں بیانات دیے ہیں، یہ واقعہ اس قدر دل دہلا دینے والا اور جان لیوا تھا کہ اس کے رونما ہونے کے چند لمحوں بعد ہی پاکستان کے تمام اہم شہروں اور حساس علاقوں کو الرٹ کر دیا گیا نیز اسلام آباد سمیت شہروں کے مختلف حصوں میں سکیورٹی فورسز کو تعینات کر دیا گیا تاکہ تخریب کاری کی کسی بھی دوسری کارروائی کا مقابلہ کیا جا سکے۔
پاکستان کے وزیر اعظم سانحہ کے باعث اسلام آباد میں اپنی تمام ورک میٹنگز منسوخ کرنے پر مجبور ہوئے اور آرمی چیف، وزرائے دفاع، داخلہ اور اطلاعات کے ساتھ پشاور گئے تاکہ اس سانحہ کی تحقیقات کے سلسلہ میں اٹھائے گئے اقدامات کا باریک بینی سے جائزہ لیں،دہشت گردی کے واقعے کے پہلوؤں کی چھان بین کریں اور اس مقابلہ کرنے نیز اس کے متاثرین کی نگرانی کریں، وزیر اعظم شہباز شریف اور صدر عارف علوی نے پشاور شہر میں بے گناہ نمازیوں کے خلاف دہشت گردی کی کارروائی کی مذمت کی اور دہشت گردی اور انتہا پسندی کے ناسور کے خلاف انتھک جدوجہد کرنے کے لیے اس ملک کے عزم اور ارادے پر زور دیا۔
پاکستان کے وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ عوام حکومت اور مسلح افواج کے ساتھ مل کر ان دہشت گردوں کا قلع قمع کریں گے جو پاکستان کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، خیبرپختونخوا کی ریاستی حکومت نے پشاور اور دیگر علاقوں میں عوامی سوگ کا اعلان کیا اور پاکستان کا پرچم بھی جھکا دیا ہے، یاد رہے کہ پشاور میں خونریز دن جس کی اصل وجہ کو خودکش حملہ قرار دیا گیا ہے، گزشتہ 10 ماہ میں اسی شہر میں مذہبی مقامات پر عبادت گزاروں کے خلاف دوسرا مہلک حملہ ہے، اس سے قبل 4 مارچ 2022ء کو داعش دہشت گرد گروہ سے وابستہ ایک خودکش بمبار نے "کوچہ رسالدار” کے علاقے میں نماز جمعہ کے دوران شیعہ مسجد میں داخل ہونے کے بعد خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس کے دوران کم از کم ایک سو بے دفاع نمازی شہید ہو گئے۔
واضح رہے کہ افغانستان کی سرحد سے متصل صوبہ خیبر پختونخوا سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں میں حالیہ مہینوں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور دہشت گرد گروہ تحریک طالبان پاکستان ان میں سے زیادہ تر حملوں کا ذمہ دار ہے جبکہ حالیہ واقعہ متحدہ عرب امارات کے صدر کے اسلام آباد کے سرکاری دورے کی منسوخی کے چند گھنٹے بعد پیش آیا حالانکہ اس دورے کی منسوخی کی وجہ ناموافق موسمی حالات کو قرار دیا گیا ، تاہم پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کی وجہ سے اسلام آباد سمیت اس ملک کے چھوٹے اور بڑے شہر حفاظتی حصار میں ہیں اور دارالحکومت میں پولیس فورسز اور انسداد دہشت گردی یونٹس کی موجودگی ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ دیکھنے کو مل رہی ہے۔
پاکستان کے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے صوبہ خیبرپختونخوا میں حالات کی خرابی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ اس واقعے کا اصل ہدف پولیس فورسز تھیں، جن کا مرکز مطلوبہ مقام کے قریب واقع تھا، انہوں نے مزید کہا کہ اب تک کسی گروپ نے پشاور کی مسجد میں ہونے والے دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، تاہم پاکستانی سکیورٹی ادارے اس واقعے کی تمام پہلوؤں سے تفتیش کر رہے ہیں،اسی دوران پاکستان کے وزیر داخلہ نے اعلان کیا کہ ایسے سراغ ملے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ حملے کے منصوبہ ساز افغانستان میں مقیم ہیں اور اسلام آباد کو اس بات پر تشویش ہے کہ دہشت گرد اس پڑوسی ملک کی سرزمین استعمال کر رہے ہیں، پاکستان کے وزیر دفاع، جنہوں نے خودکش حملے سے متعلق تحقیقات کی صورتحال جاننے کے لیے کل پشاور کا دورہ کیا، افغانستان کے عبوری حکمرانوں سے کہا کہ وہ دہشت گرد عناصر کے خلاف مزید موثر انداز میں کاروائی کریں، یاد رہے کہ ماضی میں داعش اور تحریک طالبان پاکستان جیسے دہشت گرد اور انتہا پسند گروپوں نے پشاور اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں ایسے ہی حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ پاکستانی ماہرین نے سکیورٹی کی صورتحال میں شدت اور گہرے معاشی مسائل نیز سیاسی عدم استحکام سے دوچار عوام کے حوصلوں پر اس طرح کے واقعات کا اثر ہونے کے سلسلہ میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان ایک بار پھر2007 جیسے سیاہ دور، جب پاکستانی عوام ہر روز اس ملک کے تمام علاقوں میں سکیورٹی فورسز اور شہریوں پر مہلک دھماکے اور دہشت گردانہ حملوں کا مشاہدہ کررہی تھی، اس کی لپیٹ میں آ سکتا ، پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ معیشت کے بحران اور حکومت نیز اپوزیشن دھڑے کے درمیان ملک کے نظم و نسق کو لے کر کشمکش کو دیکھتے ہوئے عوام اس ملک کے سیاسی اور عسکری رہنماؤں سے دہشت گردوں کے خلاف نئے اور فوری اقدام کا پرزور مطالبہ کرتے ہیں،ایسی جرات مندانہ کارروائی جو کے نتیجے میں اسلام آباد حکومت کی سیاسی سمجھداری کو اجاگر کر سکے۔
واضح رہے کہ پاکستانی مذہبی جماعتوں اور گروہوں کے رہنماؤں نے پیغامات میں پشاور میں دہشت گردانہ حملے کی مذمت کی ہے، تحریک انصاف پارٹی کے چیئرمین اور پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان نے دہشت گردوں کے ایجنٹوں کی نشاندہی اور ان کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے مسلح افواج کی حمایت کو مضبوط بنانے اور انٹیلی جنس اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے پر زور دیا۔