سچ خبریں: روسی وزیر خارجہ کا خیال ہے کہ موجودہ مرحلے پر بین الاقوامی تعلقات کو نئی سرد جنگ نہ سمجھا جائے بلکہ موجودہ عمل کو ایک نئی کثیر قطبی ترتیب کی تشکیل کا عمل کہنا زیادہ درست ہے۔
ٹاس نیوز ایجسنی کی رپورٹ کے مطابق روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کا خیال ہے کہ موجودہ مرحلے پر دنیا اور بین الاقوامی تعلقات کو نئی سرد جنگ سے تعبیر نہیں کرنا چاہیے اس لیے کہ شاید بین الاقوامی معاملات میں موجودہ معمولات ایک نئی کثیر قطبی ترتیب کی تشکیل کے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کئی طاقتوں کے نہ چاہتے ہوئے بھی دنیا کثیر قطبی کی طرف گامزن
سینئر روسی سفارت کار نے کہا کہ ہم بین الاقوامی تعلقات کے موجودہ مرحلے کو نئی سرد جنگ نہیں سمجھت، یہ ایک الگ مسئلہ ہے اور ملٹی پولر انٹرنیشنل آرڈر کی ایجاد ایک مختلف مسئلہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک معروضی عمل ہے اور ہر کوئی واضح طور پر دیکھ سکتا ہے کہ دنیا کے ممتاز اور نئے فیصلہ سازی کے مراکز، یوریشیا، ایشیا پیسیفک کے علاقے، مشرق وسطیٰ، افریقہ اور جنوبی امریکہ میں اپنی بنیادیں مضبوط کر رہے ہیں۔
لاوروف کے مطابق، ایسے ممالک اور یونین جن میں ایسے مراکز شامل ہیں جو قومی مفادات، آزادی، خودمختاری، ثقافتی اور تہذیبی شناخت نیز بین الاقوامی تعامل جیسی اقدار کو فروغ دیتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ وہ پوری طرح سے عالمی ترقی کے عمل کے فریم ورک کے اندر ہیں جس کے نتیجے میں وہ روز بروز نئی کامیابیاں حاصل کرتے ہیں۔
روسی وزیر خارجہ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مغرب، امریکہ کی قیادت میں اپنی بالادستی کو برقرار رکھنے کے مقصد سے اس عمل کو سست کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس سلسلے میں وہ دنیا کے متعدد ممالک میں خوراک اور توانائی کے تحفظ اور ترقی کے لیے حالات کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
مزید پڑھیں: امریکہ کثیر قطبی دنیا سے بہت خوفزدہ ہے!:امریکی میگزین
انہوں نے واضح کیا کہ بڑی رقم جو بین الاقوامی ترقی پر خرچ کی جا سکتی ہے، بشمول اشد ضرورت والے ممالک کو امداد، ہزاروں ٹن فوجی ساز و سامان اور گولہ بارود کی شکل میں، نو نازی یوکرین کو بھیجی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تاہم، اس سکے کا ایک روشن پہلو بھی ہے وہ مغرب کی خودغرضی نیز جنوب اور مشرق کے مفادات کو نظر انداز کرنا ہے جو انہیں دنیا کے تمام خطوں میں تعاون کی متبادل شکلیں تلاش کرنے پر اکساتا ہے۔
روسی عہدیدار نے کہا کہ امریکہ اور یورپ میں روسی سونے اور زرمبادلہ کے ذخائر کے ضبط کیے جانے بین الاقوامی برادری کو یہ احساس دلایا ہے کہ مغرب کے دائرہ اختیار میں رکھی گئی جائیدادوں اور ٹھوس اثاثوں کی ضبطی سے کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔
لاوروف کے مطابق نہ صرف روس بلکہ بہت سے دوسرے ممالک کو امریکی ڈالر پر اپنا انحصار مسلسل کم کرنا چاہیے اور متبادل ادائیگی کے نظام اور اپنی قومی کرنسیوں میں ادائیگی کی طرف جانا چاہیے۔
انہوں نے تاکید کی کہ اس عمل کے ساتھ ساتھ مغرب کی شرکت کے بغیر قومی اتحادوں کا اثر بڑھ رہا ہے،شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس جدید کثیر قطبی سفارت کاری کی مثالیں ہیں جن میں مغربی رہنماؤں یا پیروکاروں کے بغیر اتفاق رائے سے فیصلے کیے جاتے ہیں، ہم ان یونینوں اور اتحادوں کے ساتھ تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے انڈونیشیا کی آمادگی کا خیرمقدم کرتے ہیں، جن کے سامنے بلاشبہ ایک شاندار مستقبل ہے۔