سچ خبریں: حزب اللہ، جو غزہ اور فلسطینی عوام کی حمایت کے لیے مزاحمت کے محور کے پہلے محاذ کے طور پر طوفان الاقصیٰ جنگ میں داخل ہوئی، گزشتہ 100 دنوں میں غاصب دشمن کو پسپا کرنے میں مصروف ہے، اس تنظیم کے ہاتھوں صیہونیوں کو شمالی محاذ پر بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شمالی محاذ پر حزب اللہ کی عملداری
جنوبی لبنان محاذ پہلا محاذ تھا جو طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز کے بعد صیہونی حکومت کے خلاف کھولا گیا تھا اورغاصبوں کے خلاف فلسطینی مزاحمتی تحریک کے حملے کے ایک دن بعد 8 اکتوبر 2023 کو اس محاذ پر وسیع حملے شروع کرتے ہوئے اور حزب اللہ نے اس محاذ میں باضابطہ طور پر شمولیت کا اعلان کیا۔
قابض دشمن کے خلاف اس جنگ میں حزب اللہ کی شمولیت عراق اور یمن سمیت دیگر مزاحمتی گروہوں کے لیے فلسطینی عوام کے دفاع کے لیے کھلے عام میدان میں آنے کا پیش خیمہ تھی۔
لیکن اس کالم میں ہم خاص طور پر طوفان الاقصیٰ جنگ میں حزب اللہ کی کارکردگی کے بارے میں بات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اس کی کامیابیوں اور اس کی دشمن پر مسلط کردہ مساوات کا ایک جزوی جائزہ لینا چاہتے ہیں۔
طوفان الاقصیٰ میں صیہونیوں کے خلاف حزب اللہ کے تصادم کے قوانین
لبنانی مزاحمتی قوتیں طوفان الاقصیٰ کی جنگ میں اپنے داخلے کا اعلان کرتے ہوئے شروع ہی سے میدان جنگ میں داخل ہوئیں، اس بات سے قطع نظر کہ غزہ کی جنگ کب ختم ہوگی اور حزب اللہ کو اس راہ میں کتنے افراد کو قربان کرنا پڑے گا۔ اس جنگ میں حزب اللہ کی حکمت عملی گرم دل اور ٹھنڈے دماغ (عقل اور جذبات کے درمیان توازن) کی منطق پر مبنی تھی،حزب اللہ نے پہلے دن سے یہ ثابت کر دیا کہ وہ مقبوضہ فلسطین کے ساتھ لبنان کی جنوبی سرحد پر اس جنگ کو منطقی اور درست طریقے سے منظم کرنے اور دشمن کو حساب و کتاب کے مطابق نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
اس دوران حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ اگرچہ طوفان الاقصیٰ جنگ شروع ہونے کے تقریباً ایک ماہ بعد تک کیمرے کے سامنے نہیں آئے اور نہ ہی کوئی ردعمل ظاہر کیا، لیکن ان کی طرف سے اس جنگ میں حزب اللہ کے داخلے کے پہلے ہی دن ہر سطح پر جنگ کا انتظام کیا گیا، وہ یہ بھی اچھی طرح جانتا تھے کہ انہیں اپنے سارے کارڈ ایک ساتھ نہیں پھینکیں چاہیے جو مسئلہ صہیونیوں کے لیے خوف اور تشویش کا باعث ہے وہ حزب اللہ کے حیران کن اقدامات ہیں، اسی لیے کہ روز اول سے ہی حزب اللہ نے ان اصولوں کے ساتھ جنگ کا آغاز کیا جو اس نے اس طرح طے کیے تھے:
– صیہونی حکومت کے جاسوسی ٹاورز اور ریڈاروں کو نشانہ بنانا: بعض نے صیہونی حکومت کے جاسوسی ٹاورز اور سراغ رساں ریڈاروں کے خلاف حزب اللہ کی کاروائیوں کو کم اہمیت دکھانے کی کوشش کیلیکن حزب اللہ کی توجہ اسرائیلی فوج کے ان آلات کو تباہ کرنے پر مرکوز رہی، جس نے صیہونیوں کو اس سے ہونے والے مادی نقصان کے علاوہ انہیں الجھن میں ڈال دیا گیا اور وہ لبنانی مزاحمت کے اگلے مرحلے کی نشاندہی نہیں کر سکے۔
– دشمن کو درست جانی نقصان پہنچانا: لبنانی مزاحمت اپنی کاروائیوں میں مقدار سے پہلے معیار پر توجہ دیتی ہےتاکہ اس کا کوئی بھی آپریشن دشمن کو قطعی نقصان کے بغیر نہ ہو اور اس کی ایک گولی بھی ضائع نہ ہو،حزب اللہ کے برکان میزائل جو اس جنگ میں میدان میں داخل ہوا اور صیہونیوں کی پریشانی کا باعث بنا، وہ اپنے مطلوبہ اہداف کو بالکل ٹھیک نشانہ بناتا ہے،قابض فوج کی تمام بیرکس اور پوزیشنز نیز فوجی سازوسامان بشمول مرکاوا ٹینک، جنہیں لبنانی مزاحمتی قوتوں نے نشانہ بنایا ہے، کو براہ راست نقصان پہنچا ہےاور کئی صیہونی فوجی بھی مقبوضہ فلسطین کے شمالی محاذ میں حزب اللہ کے ہاتھوں مارے گئے کہ اسرائیلی فوج نے ان کے اعداد و شمار بتانے سے انکار کر دیا۔
صیہونی پوزیشنوں کے خلاف کاروائیوں میں بتدریج شدت: جلد بازی کے بجائے سنجیدہ اور مفید آپریشنز کے طریقہ کار کو استعمال کرنا ایک مناسب حکمت عملی تھی جسے حزب اللہ نے طوفان الاقصی کی لڑائی میں اپنی موجودگی کے آغاز سے ہی اختیار کیا اور اپنے کام کی رفتار اور شدت کو بتدریج بڑھایا۔
– جنگ بندی اور ثالثوں کو انکار: حزب اللہ، عراقی مزاحمت اور یمن کی انصار اللہ کی طرح، جو طوفان الاقصیٰ کی لڑائی میں داخل ہوئی ہے، دشمن کے ٹھکانوں پر حملے روکنے کے بارے میں کسی قسم کے مذاکرات کو قبول نہیں کرتی ہیں ، انہوں نے ان تمام فریقوں کو آگاہ کر دیا ہے جو بظاہر ثالثی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ جب تک غزہ کے عوام کے خلاف قابضین کی کاروائیاں جاری رہیں گی، صیہونی حکومت کے خلاف لبنانی مزاحمت کی کاروائیاں بھی جاری رہیں گی۔
100 دن بعد طوفان الاقصی کی جنگ میں حزب اللہ کی میدانی کامیابیاں
صہیونی دشمن کے خلاف میدان میں حزب اللہ کی کامیابیوں کو اسرائیلی فوج بہیمانہ انداز میں چھپانے کی کوشش کر رہی ہے اور خود صہیونیوں کا اعتراف ہے انہیں صیہونی فوجی ہلاکتوں کے صحیح اعداد و شمار فراہم نہیں کیے جاتے لیکن سید حسن نصر اللہ نے اپنے ایک نئے بیان میں میدان میں لبنانی مزاحمتی مجاہدین کی کچھ کامیابیوں کا ذکر کیا اور حملہ آوروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ نے 100 کلومیٹر سے زیادہ کے فاصلے پر دشمن اور قابض فوج کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے،لبنانی شہریوں کے خلاف اس حکومت کی جارحیت کے جواب میں سرحدوں کے ساتھ ساتھ صیہونی بستیوں کی ایک بڑی تعداد کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل کے بیان کے ساتھ ساتھ مزاحمتی ذرائع ابلاغ کی طرف سے شائع ہونے والی معتبر اطلاعات کے مطابق، گزشتہ 100 دنوں کے دوران حزب اللہ کے مجاہدین نے صہیونی دشمن کے خلاف 700 سے زائد کارروائیاں کی ہیں، جو سب کی سب درست اور حساب و کتاب کے مطابق تھیں ، انہوں نے مزاحمت کے تزویراتی مقاصد کو نشانہ بنایا،حزب اللہ کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ دنوں میں کارروائیوں کی تعداد 23 تک پہنچ گئی ہے۔
عام طور پر صہیونی دشمن کے خلاف حزب اللہ کی کارروائیوں کی اوسط تعداد یومیہ 6 سے 7 فوجی کارروائیوں کے درمیان تھی اور صہیونی فوج کی سرحدوں پر حزب اللہ کی طرف سے نشانہ بننے والے ٹھکانوں کی تعداد 48 تھی،اس کا مطلب یہ ہے کہ الناقورہ کے علاقے سے لے کر شبعا کے میدانوں کے آخر تک قابض حکومت کا کوئی ایسا ٹھکانہ نہیں رہا جسے لبنانی مزاحمت نے متعدد بار نشانہ نہ بنایا ہو۔
اس بنا پر لبنانی مزاحمت کی جانب سے دشمن کے ٹھکانوں کی تعداد 500 سے زائد ہے، جن میں سے بعض کو متعدد بار نشانہ بنایا جا چکا ہے، اسی طرح وہ سرحدی مقامات جہاں قابض حکومت کے فوجیوں نے پناہ لی تھی، 50 سے زائد سرحدی مقامات کو نشانہ بنایا، جن میں کچھ کو متعدد بار نشانہ بنایا گیا اور لبنانی مزاحمت کی طرف سے اب تک نشانہ بننے والی صہیونی بستیوں کی تعداد 17 تک پہنچ گئی ہے۔
مزید پڑھیں: اسرائیل کے شمالی محاذ کا کنٹرول نصر اللہ کے ہاتھ میں
سید حسن نصراللہ کے بقول مزاحمت نے ان تمام مقامات پر صیہونی حکومت کے تمام تکنیکی اور انٹیلی جنس آلات کو تباہ کر دیا ہے جن کو اس نے نشانہ بنایا ہے،وہ سامان جس کی قیمت کا تخمینہ کروڑوں ڈالر ہے،صہیونی دشمن نے اس آلات کو نہ صرف سرحدی مقامات پر معلومات کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کیا بلکہ لبنان کے بڑے حصوں میں معلومات کو کنٹرول کرنے کے لیے بھی استعمال کیا نیز لبنانی مزاحمت قابض حکومت کے ٹینکوں اور فوجی گاڑیوں کی ایک بڑی تعداد کو بھی تباہ کرنے میں کامیاب رہی۔