سچ خبریں:انٹرریجنل آن لائن اخبار کے ایڈیٹر نے فلسطینی مزاحمت کاروں اور قابض حکومت کی فوج کے درمیان تنازعہ کی صورت حال کے بارے میں اپنے تجزیے میں کہا ہے کہ جہاد اسلامی تحریک کے میزائلوں نے بنیامین نیتن یاہو ایسا سبق سکھایا ہے کہ وہ جنگ بندی کی بھیک مانگنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
عرب دنیا کے سینئر تجزیہ کار اور لندن سے شائع ہونے والے انٹر ریجنل آن لائن اخبار رائے الیوم کے ایڈیٹر عبدالباری عطوان نے مقبوضہ علاقوں کی موجودہ صورتحال اور فلسطینی مزاحمت اور صہیونی فوج کے درمیان تنازعات کے مستقبل کے بارے میں ایک تجزیہ شائع کیا جس میں انہوں نے زور دے کر کہا کہ مزاحمتی قوتوں کے میزائل حملوں کی وجہ سے تل ابیب کی کابینہ مفلوج ہو جائے گی۔
تجزیہ یہ ہے:
جہاد، بظاہر ایک چھوٹی سی تحریک جس کے بڑے اثرات
جہاد اسلامی تحریک کی اس تحریک کی عسکری شاخ کی القدس بٹالینز میں میزائل کے شعبے کے سربراہ اور فوجی کونسل کے رکن شہید علی حسن ابو غالی اور اس تحریک کے تین فیلڈ کمانڈروں کے قتل سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ صیہونی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی کابینہ نے اس تحریک کو مکمل طور پر تباہ کرنے کی امید میں موجودہ جنگ کا آغاز کیا،یہ تحریک جو اگرچہ تعداد کے لحاظ سے چھوٹی معلوم ہوتی ہے، لیکن طاقت کے لحاظ سے بہت بڑی ہے کیونکہ جہاد وہی تحریک ہے جس نے جنگ کے آغاز سے ہی اپنے راکٹوں سے صیہونی اہداف کو نشانہ بنایا اور اس کے مجاہد وہ لوگ ہیں جو اگر شہید بھی ہو جائیں تو ان کی شہادت کے نتائج صیہونی حکومت اور فوج کے لیے زلزلے کی طرح ظاہر ہوں گے، انہوں نے لکھا کہ جب جہاد اسلامی تحریک کے سیاسی شعبے کے سربراہ محمد الہندی مصری حکومت کی سرکاری دعوت پر قاہرہ جاتے ہیں تاکہ جنگ بندی کے حصول اور راکٹ حملوں کو روکنے کی امید میں ثالث کا کردار ادا کریں تو یہ اس بات کی تصدیق ہے جس کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے، یعنی سفر، بات چیت اور اہداف پہلے سے معین ہیں اگرچہ وہ قاہرہ میں سیاسی مشاورت میں مصروف ہیں لیکن وہ اس حقیقت سے انکار نہیں کرتے کہ اب تک مزاحمتی دھڑوں کی طرف سے سدیروت، اشدود و عسقلان کی صہیونی بستیوں پر 600 سے زیادہ راکٹ فائر کیے جا چکے ہیں۔
فلسطینی دھڑے: کرداروں کی تقسیم میں مربوط
مختلف فلسطینی دھڑوں کے درمیان کردار کی تقسیم کے فریم ورک کے اندر پوری صورتحال پر نظر، ردعمل، مشاورت اور پالیسیاں مشترکہ آپریشن روم میں تیار ہوئی ہیں،مجھے بعید نہیں لگتا کہ کہ حماس تحریک نے جہاد تحریک کو اسرائیلی جرائم کا جواب دینے کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے سبز روشنی دی ہو،ان تشریحات سے ایسا لگتا ہے کہ تحریک حماس ایک بڑے تصادم کے لیے اپنی طاقت کو بچا رہی ہے اس لیے اگر صیہونی آباد کار فوج کے تعاون سے اگلے ہفتے مقبوضہ بیت المقدس میں فلیگ مارچ کرتے ہیں تو صورتحال دھماکہ خیز ہو سکتی ہے اور اس صورت میں حماس تنازعات میں داخل ہو جائے گی۔ جنگی محاذوں پر جہاد اسلامی کی تحریک کی کامیابی اور استحکام کا دارومدار اس کی درج ذیل اہم شرائط پر قائم ہے، یعنی قابض حکومت کی جانب سے اسے کے مطالبات کا جواب دیے بغیر راکٹ فائر کرنا بند نہ کرنا، غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے پر اسرائیل کے دہشت گردانہ حملوں کا مکمل خاتمہ ، شہید خضر عدنان کے جسد خاکی کی واپسی ، فلیگ مارچ کی منسوخی نیز مسجد اقصیٰ اور اس کے صحنوں پر حملوں کا بند ہونا جس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ دوسرے فریق کے لیے حالات کا تعین کرنے میں یہ ابتدائی کامیابی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ اس جنگ کو روکنے اور جنگ بندی کے کسی بھی ممکنہ معاہدے کی شرائط وضع کرنے کا فیصلہ کرنے والی فلسطینی مزاحمت بالخصوص جہاد اسلامی تحریک ہے، اگر ان حملوں کے پیچھے اسرائیلی فوج کا مقصد جہاد اسلامی تحریک کو کمزور اور مفلوج کرنا اور اس کی قوت مدافعت کو کم کرنا نیز اس کی صفوں میں دہشت پیدا کرنا ہے تو میں یہ کہوں گا کہ صیہونی یہ شرط ہار چکے ہیں۔ کیونکہ یہ تحریک روز بروز ثابت کرتی ہے کہ یہ اب بھی مضبوط ہے۔ اس کے میزائل ہتھیاروں کی اہمیت اس سے کہیں زیادہ ہے جو اسرائیلی فوجی ماہرین کا خیال ہے، کیونکہ اس تحریک کی طاقت عروج پر ہے۔
تنازعہ کا تسلسل: مزاحمت کے فائدے میں اور صیہونی حکومت کے نقصان میں
غزہ کی پٹی میں مزاحمتی دھڑوں کی طاقت کا سرچشمہ جنگ کا کو طویل ہے کیونکہ قابض حکومت کی طاقت اور غزہ کی پٹی کے آس پاس سے دسیوں ہزار آباد کاروں کے فرار کے بعد شمالی علاقہ خالی ہو جائیں گے اس لیے کہ نیتن یاہو کی کابینہ کے وزراء سمیت دسیوں اور شاید لاکھوں دوسرے فرار ہو چکے ہیں، اور فضائی نیویگیشن میں تقریباً مکمل خلل پڑ رہا ہے کیونکہ آبادکار ایسی صورتحال میں نہیں رہ سکتے جبکہ صیہونی کابینہ ہے مشرق وسطیٰ کی مضبوط ترین حکومت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن اتحادی جماعتوں کے سربراہان، ان کے نمائندوں اور مشترکہ کمانڈ روم میں موجود وزراء کو ان حقائق سے پوری طرح آگاہ ہونا چاہیے، سب سے خطرناک واقعہ یہ ہے کہ یہ جنگ جتنی دیر تک جاری رہے گی اور ایسا لگتا ہے کہ یہ جاری رہے گی، تحریک حماس پر دباؤ اتنا بڑھے گا کہ جہاد اسلامی تحریک اور سرایا القدس کے ساتھ میدان میں اترے،یہ منظر نامہ عرب ثالثی کے دروازے بند کر دے گا کیونکہ حماس کے میزائل انتہائی درست ہیں اور میدان جنگ کے نقشے کو مختلف انداز میں تبدیل کریں گے اس کے علاوہ وہ نئے ڈرون اور ہتھیار بھی میدان میں لائیں گےجو نیتن یاہو اور ان کے ساتھیوں کو شدید صدمہ پہنچا سکتے ہیں۔
جب تل ابیب نے اپنے عرب ثالثوں کی توہین کی!
خان یونس میں صیہونیوں کے ہاتھوں رہائشی اپارٹمنٹ پر ہونے والے راکٹ حملے سے شہید علی حسن الغالی اور ان کے ساتھیوں کا قتل ان عرب ثالثوں بالخصوص مصری حکومت کی توہین تھی،مصر جو کہ اس کام میں سب سے آگے ہے اور قتل و غارت کو روکنے کے لیے سابقہ ثالثی میں ہمیشہ پیش پیش رہا ہے جبکہ حالیہ قتل قابض کابینہ کی طرف سے تمام ذمہ داریوں کی عدم تعمیل کی ایک اور تصدیق ہے،ہمیں عبرانی میڈیا کے اس انکشاف کی حقیقت کا علم نہیں ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں راکٹوں کی پیداوار کو روکنا جنگ بندی اور تنازعات کے خاتمے کے لیے نیتن یاہو کی اہم ترین شرائط میں سے ایک ہے۔ تاہم، یہ ایک مایوس کن کوشش اور ایک سادہ شرط ہے جس پر اصرار کرنا صرف جنگ کی توسیع اور اگلے چند دنوں میں سینکڑوں بلکہ راکٹوں کے لگنے کا باعث بنے گا۔
ایسی صورتحال جس سے نیتن یاہو واقف نہیں ہیں…
اس تصادم کا جاری رہنا اور مزاحمت کے آپریشنل ردعمل کا چوتھے دن میں داخل ہونا غاصب اسرائیلی حکومت کی شکست اور نیتن یاہو کی کابینہ کے لیے ایک زبردست دھچکا ہے جس کے اثرات اور جہتیں کسی بھی معاہدے کے چند روز بعد ظاہر ہوں گی تاہم نیتن یاہو کی سمجھ میں نہ آنے والی بات یہ ہے کہ میزائلوں کی ترقی کبھی نہیں رکے گی بلکہ یہ صنعت اور ٹیکنالوجی دریائے اردن کے مغربی کنارے میں منتقل ہو سکتی ہے اور قابض حکومت کے فوجی رہنماؤں کی توقع سے زیادہ ان کے قریب ہو سکتی ہے اس لیے کہ فلسطینی مزاحمت کے درمیان میدانوں اور محاذوں کا اتحاد مضبوط ہو چکا ہے اور اب ہتھیاروں، میزائلوں اور ڈرون یونٹ کی باری ہے۔ وقت ثابت کرے گا کہ ہر مہم کے بعد اسرائیل کی حالت مزید خراب ہوگی اور اس کی ڈیٹرنس صلاحیتیں کم ہوگی،یہ صورت حال فلسطینی مزاحمتی صلاحیتوں کو فروغ دینے کے حق میں ہے۔
مختصراً یہ کہ اگلے چند دنوں میں ہم غزہ کی پٹی سے آنے والے راکٹوں کے نتیجہ میں نیتن یاہو اور ان کی قیادت میں قابض فوج؛ کی دردناک چیخیں سنیں گے جہاد اس جنگ نے اسلامی کی تحریک کو نہیں بلکہ قابض حکومت اور اس کے آباد کاروں کی کابینہ کو مفلوج کر دیا ہے ،اب اسرائیلی حکومت کی مبینہ سیکورٹی پہلے سے کہیں زیادہ غیر مستحکم ہے، یاد رہے کہ جس طرح نیتن یاہو امریکی صدر جو بائیڈن کے پاس بھاگے اور سیف القدس کی جنگ کے دوران میزائل فائر کو روکنے کے لیے مداخلت کی درخواست کی، جس کی دوسری برسی ہم قریب آ رہے ہیں،آنے والے دنوں میں دوبارہ ان کے پاس جائیں گے اور عرب ثالثوں سے میزائلوں کو روکنے کی التجا کریں گے۔