🗓️
سچ خبریں: ان دنوں سعودی عرب یہ ظاہر کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا کہ اسے امریکہ میں کیے جانے والے فیصلوں کی ضرورت نہیں ہے اور ایران کے بارے میں اس کا نقطہ نظر میں مستحکم ہے نیز اس ملک کے ساتھ متعدد متنازعہ معاملات کو حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
لبنانی اخبار الاخبار نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان ہم آہنگی کے بڑھتے ہوئے رجحان اور ریاض کی طرف سے امریکی مطالبے کو نظر انداز کرنے پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اپنے ایک تجزیہ میں لکھا کہ یہ مسئلہ امریکہ کے اس مفروضہ کہ ریاض اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات میں ایجاد ہونے والا بحران عارضی ہے جسے حل کرنے میں کچھ وقت لگے گا،پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
ریاض اور واشنگٹن کے درمیان تیل کی طلاق
تجزیہ نگار نےیہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا سعودی عرب اور امریکہ میں تیل کی طلاق ہوچکی ہے؟ سعودی عرب کی گزشتہ دو سالوں میں تیل کی پالیسی ثابت کرتی ہے کہ اس ملک نے اپنی پالیسی میں بڑی تبدیلی کی ہے کیونکہ یہ پالیسی سعودی حکومت کے مفادات کے تحفظ پر مبنی ہے اور امریکہ کے مفادات کے مطابق نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: صیہونی سعودی دوستی میں درپیش رکاوٹیں
اس حوالے سے سعودی عرب کے وزیر تیل عبدالعزیز بن سلمان نے چند روز قبل اعلان کیا تھا کہ 1980 کی دہائی کے وہ دن ختم ہو گئے جب ہمارا ملک تیل پیدا کرنے میں اصلی کردار ادا کر رہا تھا یہ بے تکلفانہ بیان سعودی تیل کی امریکہ سے طلاق کو ظاہر کرتا ہے،یہ حقیقت سعودی عرب کی طرف سے تیل کی پیداوار میں کمی کے حوالے سے اوپیک پلس میں روس کے ساتھ ہم آہنگی کے بعد مزید واضح طور پر عیاں ہو جاتی ہے۔
یاد رہے کہ یہ مسئلہ دو مختلف ادوار میں مکمل طور پر ظاہر ہوا۔
1۔ اکتوبر 2022 میں جب سعودی عرب نے ماسکو کی درخواست پر امریکی چیخ و پکار کی پرواہ کیے بغیر بیک وقت 20 لاکھ بیرل کی پیداوار کم کرنے کے لیے دباؤ ڈال کر روس سمیت اوپیک + کے تمام ممبران کو حیران کر دیا اس لیے کہ یہ مقدار اس سے دو برابر تھی جو انہوں نے اس سے پہلے طے کیا تھا۔
2۔ گزشتہ جون کے آخر میں، جب ریاض نے یکطرفہ رضاکارانہ طور پر 10 لاکھ بیرل کی کمی کا اعلان کیا اور ماسکو پر دباؤ ڈالا کہ وہ OPEC+ کی پیداوار میں مزید نصف ملین بیرل کمی کرے، باوجود اس کے کہ وہ اس تنظیم کے اندر موجود تھا۔ پیداوار میں اس کمی پر روسیوں کے عدم اطمینان کے حوالے سے کئی رپورٹیں شائع ہوئیں اور سعودی عرب نے بھی غیر سرکاری طور پر اعلان کیا کہ ماسکو نے طے شدہ پیداواری کوٹے سے تجاوز کر لیا ہے۔
تجزیہ نگار نے مزید وضاحت کی کہ اس سلسلے میں روسیوں کے اپنے مسائل ہیں جو اس حقیقت پر مبنی ہیں کہ کمی کے نتیجے میں قیمت میں اضافہ ماسکو کو اس کم شدہ رقم کی فروخت کے نقصان سے ہونے والی رقم کی تلافی نہیں کرتا ہے۔ خاص طور پر چونکہ تیل کی پیداوار میں اس کمی کو پورا کرنے کے لیے دوسرے پروڈیوسر موجود ہیں اور روسی صارفین کو ہتھیا سکتے ہیں لیکن آخر کار ریاض نے تیل کی منڈی کو کنٹرول کرنے کے لیے ماسکو کے ساتھ ہم آہنگی کی پالیسی کو جاری رکھنے کا اعلان کیا۔
ایران اور سعودی عرب کے درمیان بیجنگ کی نگرانی میں ہونے والا معاہدہ
تجزیے میں مزید آیا ہے کہ تیل کی بہت اہمیت کے باوجود وہ واحد میدان نہیں ہے جس میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان امریکہ کے حکم کی نافرمانی کرتے ہیں بلکہ حال ہی میں اس مسئلے کی علامات میں اضافہ ہوا ہے کہ بن سلمان ثابت قدمی اور تیزی سے امریکیوں کی حفاظتی ضروریات سے ہٹ کر حکومتی قوانین کے قیام کی طرف بڑھ رہے ہیں اور انہوں نے اس سمت میں مسلسل قدم اٹھائے ہیں، جن میں سب سے اہم بیجنگ کی نگرانی میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان طے پانے والا معاہدہ ہے۔ اس حد تک کہ اس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ علاقائی معاملات میں امریکی بالادستی کے متبادل کے طور پر سعودی ایرانی مشترکہ بالا دستی کا ابھرنا ہے۔
یمن بحران کے حل میں پیش رفت
یمن کے حوالے سے جہاں وہ سعودی ایران معاہدے کی کامیابی یا ناکامی کو بہت اہم سمجھتے ہیں وہیں یہ کہنا چاہیے کہ معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے رکاوٹ ڈالنے کی کوششوں کے باوجود سب کچھ آگے بڑھ رہا ہے، یہاں تک کہ تنخواہوں کے معاملے میں بھی معاہدہ ہو چکا ہےاور اس کا ایک حصہ ادا کرنے پر اتفاق ہواہے، تاہم یمن بحران کے حل میں جو چیز تاخیر کا باعث بنتی ہے وہ اس ملک میں مختلف گروہوں کی موجودگی کا پیچیدہ منصوبہ اور ان گروہوں کے غیر ملکی فریقوں کے ساتھ وابستگی ہے،تاہم عمومی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ امید کی کرن دکھائی دے رہی ہے اس لیے کہ انصار اللہ اور سعودی حکام کے درمیان مذاکرات کی مثبت فضا اور دونوں فریقوں کے واضح ارادوں اور مفادات کو حل کی طرف بڑھ رہی ہے۔
مزید پڑھیں: ایران اور سعودی عرب کے معاہدوں سے اسرائیل کے منصوبے ناکام: صہیونی میڈیا
اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے تجزیہ نگار نے سعودی عرب میں صنعاء سے ایک اعلیٰ سطحی وفد کی مسلسل موجودگی کی طرف اشارہ کیا جو مناسک حج کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ گیا تھا اور لکھا کہ اس وفد نے میڈیا کی نظروں سے دور مزید مذاکرات کے لیے آٹھ دن تک سعودی عرب میں قیام کیا اور مذاکرات کے نتائج اور تفصیلات بتائے بغیر حال ہی میں صنعاء واپس آیا ہے۔
ریاض تہران کے ساتھ مسائل پیدا نہیں کرنا چاہتا
تجزیہ نگار نے مزید اشارہ کرتے ہوئے کہ ایران، سعودی عرب اور کویت کے درمیان عرش گیس فیلڈ کے معاملے پر تنازعہ ہے، جسے عرب ممالک الدرۃ کہتے ہیں مزید لکھا ہے کہ الدرۃ کے مسئلے ،جس میں ایک طرف ایران اور دوسری طرف کویت اور سعودی عرب ہے،کے دوبارہ ابھرنے نے یہ بھی ظاہر کیا کہ اس حقیقت کے باوجود کہ سعودی عرب سمندری سرحدوں پر ایران کے ساتھ مذاکرات کی ضرورت کے حوالے سے کویت کے ساتھ ہے لیکن نے ثابت کیا کہ تہران کے ساتھ مسئلہ پیدا کرنا چاہتا اور ایران کے ساتھ اس معاملے میں مذاکرات کرنے والے فریقوں میں سے ایک کے طور پر کام کرنا چاہتا ہے ۔
انہوں نے لکھا کہ کویت اور سعودی عرب کے ایران کے ساتھ عرش گیس فیلڈ کے تنازع کی ایک طویل تاریخ ہے اور اب ایران کی جانب سے اس تنازعے کو حل کرنے کی ضرورت پر زور دینے کے بعد اس سے فائدہ اٹھانے اور وہاں مشقیں کرنے کے بعد کویت اور سعودی عرب کے ایران کے ساتھ میڈیا تنازعات کو ہوا دی گئی ہے۔
تجزیے میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کے اس موقف کو مغرب میں مقیم سعودی حزب اختلاف کے ایک حصے کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے ریاض پر الزام لگایا کہ اس نے تہران سے فوری طور پر اس میدان میں ڈرلنگ روکنے کا مطالبہ نہیں کیا،تاہم سعودی عرب کا عوامی ذوق واضح طور پر ایران کے ساتھ ہم آہنگی کے عمل کو آگے بڑھانے اور خطے کے عوام کی اپنے ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر کرنے کی خواہش کے مطابق ریاض کی پالیسی کی طرف ہے، خاص طور پر چونکہ ریاض اور تہران کے درمیان بہت سے مسائل امریکہ کے پیدا کیے ہوئے ہیں، دوسری طرف امریکی سعودی عوام میں زیادہ مقبول نہیں ہیں،اس دعوے کا سب سے اہم ثبوت امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے ریاض کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی فتنہ انگیز تجاویز دینے کی تمام تر کوششوں کے باوجود سعودیوں کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم نہ کرنا ہے۔
سعودی عرب کا صیہونیوں کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے امریکی مشورے کو مسترد کرنا
یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ چند سال پہلے تک ایسا لگتا تھا کہ ریاض اور تل ابیب کے درمیان معمول پر آنے کی راہ میں صرف وقت ہی کا مسئلہ ہے اور اس سلسلے میں سعودی عرب کے اقدامات بشمول اسرائیلی تجارتی طیاروں کو سعودی عرب کی فضائی حدود سے پرواز کرنے کی اجازت دینا یہ ثابت کر رہا تھا لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ریاض اس سے پہلے والی صورتحال میں واپس آ گیا ہے اور تل ابیب کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا انحصار دو ریاستی حل کی بنیاد پر مسئلہ فلسطین کے حل تک پہنچنے پر ہے،اس سلسلے میں سعودی نظام کو اپنے عوام کے ذائقے اور خواہشات کے ساتھ ساتھ علاقائی حالات کے تقاضوں پر بھی توجہ دینی چاہیے۔
آخر میں تجزیہ نگار نے تاکید کرتے ہوئے لکھا کہ سعودی نظام کی نئی خارجہ پالیسی ایک چیز کی رہنمائی کرتی ہے اور وہ ہے اس نظام کے مفادات، یہاں تک کہ اگر اس بات کا امکان ہے کہ وہ امریکی پالیسی میں بنیادی تبدیلی کے نتیجے میں مستقبل میں واشنگٹن کے ساتھ اتحاد میں واپس آجائے گا،یہ واپسی مختلف حالات میں ہو گی اور امریکہ اب ریاض کو اپنی مرضی کا حکم نہیں دے سکتا اور اس پر عمل درآمد کی توقع نہیں کر سکتا۔
مشہور خبریں۔
برطانوی عوام فلسطین کے حامی یا مخالف؟
🗓️ 18 نومبر 2023سچ خبریں: انگلستان میں مسئلہ فلسطین کے حامیوں نے اعلان کیا ہے
نومبر
مری کی تمام اہم شاہراہوں کو ٹریفک کے لیے کلیئر کر دیا گیا: پنجاب پولیس
🗓️ 9 جنوری 2022لاہور(سچ خبریں) شدید برفباری سے متاثرہ سیاحتی مقام مری کی تمام اہم
جنوری
عمران خان کا پی ٹی آئی کو ’نشانہ بنائے جانے‘ کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ
🗓️ 15 نومبر 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان
نومبر
کورونا وائرس کا پتا لگانا اب اس نئ علامت سے ہوا بہت ہی آسان، جانیں اس علامت کو
🗓️ 3 فروری 2021اسلام آباد {سچ خبریں} پچھلے ایک سال سے دنیا کو پریشان کرنے
فروری
امریکہ اور برطانیہ کا ایران کے خلاف صیہونی جہاز پر حملے کا الزام
🗓️ 2 اگست 2021سچ خبریں:امریکی برطانوی وزرائے خارجہ انتھونی بلنکن اور ڈومینک روب صیہونی حکومت
اگست
الکاظمی کردستان میں صہیونیوں کی موجودگی کا جواب دیں: عراقی رکن پارلیمنٹ
🗓️ 16 مارچ 2022سچ خبریں:عراقی پارلیمنٹ کے رکن نےاس بات پرزور دیتے ہوئے کہ کردستان
مارچ
ہفتہ وار مہنگائی بدستور 35 فیصد سے زائد
🗓️ 21 اکتوبر 2023اسلام آباد: (سچ خبریں) قلیل مدتی مہنگائی 19 اکتوبر کو ختم ہونے
اکتوبر
ملک میں غربت نہیں ہے
🗓️ 22 جون 2021اسلام آباد(سچ خبریں) وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک نے مہنگائی کو اپوزیشن
جون