سچ خبریں:عراق میں داعش کے باقی ماندہ عناصر کے وقتاً فوقتاً حملوں نے دہشت گردی سے متعلق امور کے تجزیہ کاروں اور مبصرین کے ذہنوں میں سوال پیدا کیا ہے کہ تکفیریوں کے پاس مالی وسائل اور ہتھیار کہاں سے آتے ہیں۔
داعش نے 17 جون 2013 کو عراق پر حملہ کیا اور مختصر عرصے میں ملک کے تقریباً 45 فیصد علاقے پر قبضہ کر لیا ،تاہم نومبر 2016 میں اسے شکست ہوئی لیکن اس کے بعد سے اب تک اس دہشت گرد گروہ کے غیر فعال سیل عراق اور شام میں سرگرم ہیں اور وقتاً فوقتاً دہشت گردانہ کارروائیاں کرتے رہتے ہیں،اس مقصد کے لیے داعش کے ارکان سب سے پہلے اپنے ہدف والے علاقوں میں حالات کو کشیدہ اور غیر مستحکم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ عناصر انفرادی طور پر جو حملے کرتے ہیں وہ اس مقصد کے لیے ہوتے ہیں تاکہ وہ اپنے حالات کو دوبارہ منظم کر سکیں، داعش نے پسپائی کی جنگ شروع کر رکھی ہے تاکہ اس طرح وہ عراقی سکیورٹی فورسز کو زیادہ سے زیادہ جانی نقصان اور اس ملک کے انفراسٹرکچر کو زیادہ نقصان پہنچا سکے۔
عراق میں داعش کن علاقوں میں سرگرم ہے؟
داعش کو کچھ جگہوں پر اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کا موقع ملا، خاص طور پر کرکوک، دیالہ، نینویٰ، صلاح الدین ، عراق اور شام کے سرحدی علاقوں اور حمرین کے پہاڑوں میں تاکہ یہاں سے وہ گھات لگا کر عراقی افواج پر حملہ کر سکیں، ان علاقوں کو اس وقت عراق میں داعش کے سب سے زیادہ فعال مراکز تصور کیا جاتا ہے،حال ہی میں تکفیریوں نے کرکوک، نینویٰ، دیالہ، جلولاء کے نواحی علاقوں اور صلاح الدین کے مشرقی علاقوں پر سلسلہ وار حملے کیے ہیں جبکہ بعض سکیورٹی ذرائع نے مغربی عراق کے صحرائے الانبار اور شام کے ساتھ سرحد میں داعش کے تربیتی مراکز کی موجودگی کی اطلاع بھی دی۔
اس وقت داعش تین علاقوں میں سرگرم ہے۔
1– جزیرہ انبار ؛واید حوران سے صحرائے الرطبہ تک۔
2– حویجہ تک حمرین کی پہاڑیاں اور کرکوک کے جنوب میں۔
3– نینویٰ کے مشرق مخمور میں واقع قراجوغ پہاڑی سلسلہ ۔
امریکہ داعش کا اصل حامی
عراق میں داعش کے پھر سے سر اٹھانے میں امریکی فوج ذمہ دار ہے کیونکہ انہوں نے اس کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے کچھ نہیں کیا اس لیے کہ واشنگٹن خطے میں امریکہ کے اقتصادی اور سیاسی مفادات کو محفوظ بنانے کے مقصد کے ساتھ منظم طور پر افراتفری پیدا کرنے کے لیے ایک طویل المدتی منصوبے پر عمل پیرا ہے، عراق اور شام کی سرحدوں پر موجود امریکی فوج کے اڈے داعش کی سرگرم قوتوں کی فوجی تربیت اور اس تنظیم کے سب سے اہم مراکز اور مقام ہیں، عراقی پارلیمانی اتحاد الفتح کے ایک رہنما عدی عبدالہادی نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ اس ملک میں داعش کو ختم نہیں کرنا چاہتا،انہوں نے مزید کہا کہ یہ مسئلہ سب پر واضح ہوچکا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس سروس نے بین الاقوامی شدت پسند تنظیموں کی بنیادیں قائم کیں جن میں القاعدہ، داعش اور دیگر گروہ شامل ہیں، امریکہ نہیں چاہتا کہ داعش عراق میں اپنا کام ختم کرے اور وہ اس دہشت گرد تنظیم کو اس ملک میں باقی رکھنا چاہتا ہے، امریکہ شام کے الحول کیمپ میں مختلف قومیتوں کے حامل ہزاروں دہشت گرد عناصر کی حمایت کرتا ہے تاکہ انہیں اپنے مفادات کے حصول کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے خطے اور عراق کو عدم استحکام سے دوچار کر سکے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ 3 طریقوں سے داعش کی حمایت کرتا ہے:
1۔ اس دہشت گرد تنظیم کی مالی مدد۔
2۔ اس کے لیے انٹیلی جنس اسپورٹ ۔
3۔ داعش کے عناصر کا شام سے عراق فرار ہونے میں مدد۔
امریکی چنوک ہیلی کاپٹر عراق کی فضائی حدود میں پرواز کرتے ہیں ،یہ ان پر ذرا سی بھی نگرانی کے بغیر شام سے عراق اور عراق سے شام آتے جاتے ہیں، ان ہیلی کاپٹروں کی نقل و حرکت بڑے سوالیہ نشانات پیدا کرتی ہے، خاص طور پر جب یہ ان راستوں پر پرواز کرتے ہیں جہاں داعش کے سیل موجود ہوتے ہیں،اس بات کا کوئی قوی امکان ہے کہ ان ہیلی کاپٹروں کا دیالہ اور دیگر صوبوں میں داعش کی نقل و حرکت سے براہ راست تعلق ہو خاص طور پر جبکہ کئی علاقوں میں ان کی مشکوک نقل و حرکت دیکھی گئی ہے۔
عراقی پارلیمنٹ کے سیکورٹی اینڈ ڈیفنس کمیشن کے رکن کریم علیوی نے واضح طور پر کہا کہ امریکہ داعش کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے یہ دکھاوا کرنا چاہتا ہے کہ امریکی فوجی عراق کی سلامتی کے ضامن ہیں، اس کی غیر موجودگی میں داعش کی نقل و حرکت میں اضافہ ہوگا نیزاس سلسلے میں عراق کے ممتاز سیکورٹی ماہر موید العلی کا کہنا ہے کہ عراق میں سیکورٹی کی خلاف ورزیاں امریکہ کی براہ راست نگرانی میں کی جاتی ہیں،حتیٰ کہ حشد الشعبی فورسز کے اڈوں اور نقل و حرکت کے بارے میں بھی معلومات امریکی ڈرونز کے ذریعے داعش کو دستیاب کی جاتی ہیں،کوآرڈینیشن فریم ورک کے رہنماؤں میں سے ایک جبار عودہ نے بھی اس بات پر زور دیا کہ امریکی فوج نے شام کے الحسکہ علاقے کی جیلوں سے داعش کے ہزاروں گرفتار ارکان کو دوسرے مقامات پر منتقل کر دیا ہے۔
داعش کے ہتھیاروں کی فراہمی کے ذرائع
مختلف علاقوں میں خاص طور پر شمالی اور کرکوک میں عراقی افواج کے خلاف داعش کے عناصر کی طرف سے بارودی سرنگوں اور دھماکہ خیز مواد کے استعمال کے بعد عراقی حکام کے ذہنوں میں بہت سارے سوال پیدا ہوئے ہیں کہ داعش کو ان کاروائیوں کے لیے اسلحہ اور مالی وسائل کہاں سے ملتے ہیں، ایک ذریعہ یہ ہے کہ داعش کچھ خاص علاقوں کے رہائشیوں، کسانوں اور تاجروں کو دھمکیاں دے کران سے مالی وسائل حاصل کرتی ہے، اگرچہ کچھ لوگ کچھ داعش کی سرگرمیوں کے کم ہونے کی امید رکھتے ہیںلیکن یہ درست نظریہ نہیں ہے کیونکہ زیادہ تر داعشیوں نے زندگی کی امید کھو دی ہے اور ان کے سروں میں مہلک منصوبے ہیں اسی وجہ سے ان کے تشدد میں اضافہ ہوا ہے، یہ ہے کہ داعش کے عناصر نے ریلیف اور اپنی ضروریات کی فراہمی تک رسائی حاصل کر لی ہے اس کا مطلب ہے کہ داعش سے آزاد ہونے والے شہروں میں شہریوں ، سیکورٹی فورسز اور حشد الشعبی کے خلاف ان کے دہشت گردانہ حملے بڑھیں گے۔
حالیہ ہفتوں میں آپریشنز کے لیے TNT کا استعمال متعدد عراقی فوجیوں کی ہلاکت کا باعث بنا،ماہرین اور مبصرین کا خیال ہے کہ داعش کے عناصر ان سرنگوں میں منتقل ہو رہے ہیں جن تک رسائی مشکل ہے اس لیے ان تک رسد پہنچنے سے روکنے کے لیے ایک نئے سیکیورٹی پلان کی ضرورت ہے، داعش کے ہاتھوں TNT کے استعمال کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے امداد کی نئی لائنیں حاصل کی ہیں،سکیورٹی حکام نے آئی ایس آئی ایس کے ساتھ کام کرنے والوں کے بارے میں معلومات کی نئی تحقیقات شروع کی ہیں، خاص طور پر یہ کہ یہ مواد عراقی شہروں کے درمیان کس طرح منتقل کیا جا رہا ہے، مذکور ذرائع نے تاکید کی کہ داعش گزشتہ مہینوں کے دوران خام مال کے حصول کے لیے آزاد کرائے گئے کچھ شہروں میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئی ہے،اس کے علاوہ عراق اور شام کے درمیان ایسے علاقوں کو عبور کرنے کا بھی امکان ہے، جن تک عراقی افواج ابھی تک نہیں پہنچ پائی ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ داعشی ایس کے عناصر ایسے ٹھکانوں میں رہتے ہیں جو عراقی سکیورٹی فورسز کو معلوم ہیں لیکن کچھ علاقے ناقابل رسائی ہیں اور ان تک پہنچنا مشکل ہے،عراقی فضائیہ باقاعدگی سے ان مشکل سے پہنچنے والے علاقوں اور داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتی ہے اور یہ ٹھکانے نگرانی میں ہیں۔ اگرچہ داعش شکست کھا چکی ہے لیکن جب بھی اسے کا موقع ملتا ہے وہ متعدد عراقی فوجیوں کو نشانہ بناتی ہے،داعش کے زیر استعمال زیادہ تر علاقے اور ٹھکانے کردستان کے علاقے کی سرحد پر ہیں اور کچھ دیگر دیالہ میں ہیں جو عراقی فضائیہ کی زد میں ہیں،داعش کے عناصر کے لیے ان ٹھکانوں کو چھوڑنا مشکل ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ انہیں چھوڑنے کا مطلب موت ہے،گرفتار شدگان سے حاصل کیے گئے اعترافات کے مطابق داعش کے عناصر کے پاس جو گولہ بارود ہے وہ نیا ہے، اگرچہ سیکورٹی فورسز اپنی معلومات کو باقاعدگی سے اپ ڈیٹ کر رہی ہیں، تاہم حالیہ دہشت گردانہ حملوں سے ثابت ہوتا ہے کہ داعش اپنے ٹھکانوں سے باہر آنے اور حالات کو خراب کرنے کے درپے ہےجس سے اس کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ وہ اب بھی مضبوط اور تصادم کی صلاحیت رکھتی ہے۔
آخر میں کیا کہا جاسکتا ہے کہ عراق میں داعش کی نقل و حرکت کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ تکفیریوں کے پاس بڑے پیمانے پر حملے کرنے کی طاقت نہیں ہے لہذا وہ چھپ کر وار کرتے ہیں، داعش کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے عوامی پلیٹ فارم کی ضرورت ہے، اور سوڈانی حکومت عراق میں داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے ذریعے غریب لوگوں کی بھرتی کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کر سکتی ہے، تاہم حیرت انگیز حملوں کے باوجود داعش اس وقت زوال کی طرف گامزن ہے کیونکہ وہ مالی وسائل اور انسانی عناصر کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے قابل نہیں ہے، خاص طور پر اس گروپ کی اعلیٰ صفوں میں۔