شام اور ترکی میں حالیہ خوفناک زلزلے اور دونوں ممالک میں زلزلہ زدگان کی مدد کے حوالے سے نظر آنے والے دوہرے معیار نے امریکہ اور مغرب کے انسانی حقوق کے جھوٹے دعووں کی ایک بار پھر پول کھول دی ہے اور یہ ظاہر کیا ہے کہ ان کے لیے انسانی حقوق صرف اور صرف ان کے اپنے مفادات تک محدود ہیں۔
اس وقت جبکہ شامی عوام 2011 میں شروع ہونے والے دہشت گردی کے تباہ کن بحران کے ایک عشرے کے بعد حالیہ خوفناک زلزلے کی وجہ سے ایک اور تباہ کن بحران کا سامنا کر رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے دشمنوں کی معاندانہ پالیسیوں کے نتائج کا بھی سامنا ہے۔
ترکی اور شام کے زلزلہ زدگان کی مدد میں مغرب اور امریکہ کا دوہرا معیار
پیر کی صبح کو ریکٹر اسکیل پر 7.8 کی شدت کے زلزلے نے جنوبی ترکی اور شمالی شام کو ہلا کر رکھ دیا اور دونوں ممالک کے لیے تباہ کن اور بے مثال انسانی اور مادی نقصان پہنچایا جس کے بعد دنیا بھر کے مختلف ممالک اور تنظیمیوں زلزلہ متاثرین کو ریلیف فراہم کرنا شروع کر دی ہے لیکن دو زلزلہ زدہ ممالک کی امداد میں پہلا قابل توجہ نکتہ وہ دوہرا معیار ہے جو مغرب، امریکہ حتیٰ کہ اقوام متحدہ نے بھی اس میدان میں اپنایا ہے، ، ترکی اور شام کی فضاؤں میں اڑنے والے امدادی طیاروں کی تصاویر پر ایک نظر ڈالنے سے ثابت ہو جاتا ہے کہ مغربی اور امریکی اتحاد کے لیے انسانی حقوق صرف اور صرف اسی وقت معنی رکھتے ہیں جب یہ ان کی پالیسیوں اور مفادات کے مطابق ہوں۔
بلاشبہ ترکی اور شام دونوں مصیبت زدہ ممالک کو اس وقت بین الاقوامی یکجہتی اور امداد کی ضرورت ہے لیکن شواہد بتاتے ہیں کہ مغرب اور امریکہ کی بلیک میلنگ اور سیاسی کھیل کبھی بھی انسانیت سوز معاملات سے الگ نہیں ہو سکتے کہ اس وقت جس کا شکار شامی عوام ہو رہے ہیں، یہاں تک کہ اس عظیم بحران میں ان کی جانب انسان دشمن پالیسیاں بھی اپنائی جار ہی ہیں،المیادین چینل سمیت علاقائی ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی ہے کہ شام میں آنے والے خوفناک زلزلے سے مرنے والوں کی تعداد 4000 سے زیادہ ہو گئی ہے جبکہ ملک کے شمالی علاقوں میں اس کے آفٹر شاکس کا سلسلہ جاری ہے۔
شام کی مدد کے لیے کون کون ممالک آگے آئے؟
سب سے پہلے جن ممالک نے شام کے زلزلے کے متاثرین کی مدد کے لیے اپنی تیاری کا اعلان کیا وہ ایران، روس، چین اور متحدہ عرب امارات تھے، اس سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا شام کے زلزلہ زدہ عوام کے لیے انسانی امداد لے جانے والا تیسرا طیارہ منگل کی نصف شب حلب کے ہوائی اڈے پر اترا،روس کے وزیر دفاع سرگئی شوئیگو نے بھی شام میں تعینات روسی افواج کے کمانڈر کو حکم دیا ہے کہ وہ اس ملک کے شمال میں آنے والے زلزلے کے متأثرین کے لیے ضروری مدد فراہم کریں،روسی وزارت دفاع کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق پیر کے بعد سے روس کے مرکز برائے مصالحت کی طرف سے شمالی شام کے مختلف شہروں میں انسانی بنیادوں پر امداد کی تقسیم کے چھ مراکز قائم کر کے کام شروع کر دیا گیا ہے جہاں سے لوگوں کو ابتدائی ضروریات زندگی پیکج اور کھانے پینے کی چیزیں فراہم کی جارہی ہیں، انسانی ہمدردی کی اس کارروائی میں 300 سے زائد فوجی دستے اور خصوصی اور فوجی سازوسامان کے 60 یونٹس حصہ لے رہے ہیں۔
عراقی الحشد الشعبی آرگنائزیشن کے سامان اور امدادی دستوں کا ایک قافلہ شام کے زلزلے کے متاثرین کی مدد کے لیے القائم بارڈر کراسنگ کے ذریعے اس ملک میں داخل ہوا ہے حتیٰ کہ لبنان نے اپنے شدید اقتصادی بحران کے باوجود شامیوں کو ہر قسم کی امداد فراہم کرنے کے لیے اپنی تیاری کا اعلان کیا ہے اور اپنی سمندری اور فضائی سرحدیں، بندرگاہیں اور ہوائی اڈے شام کے لیے انسانی امداد لے جانے والے طیاروں اور بحری جہازوں کے لیے کھول دیے ہیں نیز اس بات پر زور دیا ہے کہ امدادی سامان پر ڈیوٹی اور ٹیکس عائد کیے نہیں جائیں گے، کیا جاتا ہے لبنان کی حزب اللہ نے بھی اعلان کیا ہے کہ اس نے شام کے زلزلے کے متاثرین کی مدد کے لیے متعدد طبی ٹیمیں بھیجی ہیں، شامی حکام اور دستیاب شواہد کے مطابق بھی اس ملک کے زلزلہ زدگان کو مناسب اور موثر امداد فراہم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ غیر منصفانہ پابندیاں ہیں جو امریکہ اور مغرب کی طرف سے دمشق کے خلاف گزشتہ دہائی سے عائد کی گئی ہیں۔
امریکی پابندیاں؛ شام میں زلزلے کے متاثرین کی مدد میں سب سے بڑی رکاوٹ
شام میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی قیادت میں خطے میں دہشت گردی کے عظیم بحران جس سے شامی عوام ابھی تک چھٹکارا نہیں پا سکی ہے، کے بہانے سے دمشق پر مسلط کردہ ظالمانہ محاصرے نے شامی قوم کی زندگی کو ہر سطح پر متاثر کیا، ان پابندیوں میں سے بدترین پابندیاں وہ تھیں جو جون 2020 میں سزار قانون کے نام سے نافذ ہوئیں،اس قانون کے مطابق کوئی بھی فریق جس نے شامی حکومت کے ساتھ کسی بھی طرح سے تعاون کیا ہو یا اسے مالی امداد فراہم کی ہو، بالخصوص توانائی، تعمیرات، انجینئرنگ اور نقل و حمل کے منصوبوں وغیرہ میں، وہ امریکی پابندیوں کی زد میں آئے گا اس کے علاوہ لین اس ملک کے ساتھ دین اور تجارت نیز دمشق کو قرض یا مالی امداد دینا بھی ممنوع ہے۔
اقتصادی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ قیصر کے قانون کے نفاذ کے بعد شام کے ساتھ مالی تعاملات اور تعاون کو بہت زیادہ خطرہ لاحق ہے کیونکہ امریکہ دمشق کے ساتھ تمام غیر ملکی مالیاتی منتقلی کو منقطع کرنے اور مختلف سطحوں پر شام کو پہنچنے والی کسی بھی امداد کو روکنے کی کوشش کرتا ہے،اس کے علاوہ امریکیوں نے حال ہی میں اس ملک کے خلاف ہونے والی تمام سازشوں کے باوجود شامی قوم کے ہتھیار ڈالنے سے مایوس ہو کر ایک اور مجرمانہ فعل کا ارتکاب کرتے ہوئے شام کے طبی شعبے پر پابندی لگا دی، یاد رہے کہ شام کے پاس اس ملک کے خلاف دہشت گردی کی عالمی جنگ سے پہلے مشرق وسطیٰ کا ایک بہترین طبی نظام تھا،تاہم اس وقت شامی شہری طبی خدمات کے شعبے میں بہت سی کمیوں کا شکار ہیں، امریکی پابندیوں نے اس ملک میں درد کش ادویات جیسی ضروری اور بنیادی ادویات تک رسائی مشکل بنا دی ہے جبکہ موجودہ حالات میں اور شام میں آنے والے خوفناک زلزلے کے بعد یہ صورتحال مزید خراب ہوئی ہے اس لیے کہ زلزلہ زدگان کو پہلے تو ادویات اور طبی آلات کی اشد ضرورت ہے، دوسری جانب شام کے شمالی علاقوں میں اب بھی سیکڑوں افراد ملبے تلے دبے ہوئے ہیں لیکن اس ملک میں آلات کے داخلے پر پابندی کے باعث مناسب سہولیات کی کمی کے باعث ریسکیو اور ملبہ ہٹانے کی کارروائیاں بہت زیادہ متاثر ہوئی ہیں جس کی وجہ سے اس وقت تک اس ملک میں انسانی ہلاکتوں کی تعداد بڑھ چکی ہے۔
واضح رہے کہ شام کے سیاسی تجزیہ کار احمد الدرزی نے اس تناظر میں اعلان کیا کہ شام کے خلاف امریکی پابندیوں نے زلزلہ زدگان کو بچانا بہت مشکل بنا دیا ہے،یہ مسئلہ صرف قیصر کے قانون تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ نئی پابندیوں کو جو "کیپٹاگون لا” کے نام سے جانا جاتا ہے، نے تمام سرحدوں سے شام کا محاصرہ سخت کر دیا ہے اور زلزلہ متاثرین کی مدد کے لیے ضروری سامان بھیجنے میں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے،انہوں نے مزید کہا کہ اس صورت حال میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی ممالک نے شام کے معاملے کے حوالے سے انسانی حقوق کو اپنے سیاسی ایجنڈے سے جوڑ دیا ہے اور وہ اس ملک کے نظام کی مخالفت کے بہانے لوگوں کو سزائیں دے رہے جس کی ایک مثال ترکی اور شام میں زلزلہ زدگان کی مدد کرنے میں واضح طور پر فرق کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے، مغربی ممالک نیٹو میں ان کے ساتھ ترکی کے تعاون پر اعتماد کر رہے ہیں اور مغربی اتحاد میں انقرہ کی پوزیشن کو ثابت کرنے کے لیے اس ملک کے آئندہ صدارتی انتخابات کا انتظار کر رہے ہیں۔
عرب ممالک نے شام کو پھر تنہا چھوڑ دیا۔
بلاشبہ اس شام مخالف امریکی محاصرے میں ملک کے عرب اتحادی بھی شامل ہیں،سعودی عرب سمیت ان ممالک نے 2011 سے امریکی پالیسیوں کے بعد شام سے تمام تعلقات منقطع کر لیے ہیں جبکہ انہیں سے اس ملک میں شروع ہونے والے بحران میں اہم کردار ادا کیا تھا اور اب یہی ممالک موجودہ حالات میں شام میں زلزلہ کے متاثرین کے ساتھ زبانی یکجہتی کے باوجود امداد فراہم کرنے میں لاتعلق ہیں،قابل ذکر ہے کہ پیر کے روز سے جب ترکی اور شام میں زلزلے کی خبریں شائع ہوئیں تو عرب ممالک نے امداد فراہم کرنے اور ماہرین کو ترکی بھیجنے کے لیے فضائی پل بنائے لیکن ان کی طرف سے شام میں زلزلے کے متاثرین کے لیے کوئی قابل ذکر مدد دیکھنے میں نہیں آئی،وہ بھی ایسے وقت میں جب کہ شامی باشندوں کو زلزلہ زدگان کے لیے کھانا تک فراہم کرنے میں بھی بہت سے مسائل درپیش ہیں،درایں اثنا امریکہ کی قابض افواج نے اس ملک کے شمالی علاقوں میں شام کے تیل اور گیس کے کنوؤں اور قدرتی وسائل کو لوٹ کر شامی قوم کی ان تک رسائی سے محروم کر دیا ہے اور امریکیوں کے ہاتھوں شامی تیل، گندم اور اناج کی اسمگلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔
اس صورتحال میں یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہم ترکی کو امداد فراہم کرنے کے لیے خلیج فارس کے امیر ممالک کے مقابلے کا مشاہدہ کر رہے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ شام ان کی توجہ کا مرکز نہیں ہے،بلاشبہ دنیا میں کہیں بھی ضرورت مندوں کو امداد فراہم کرنا قابل تعریف ہے لیکن انسانی معاملات میں دوہرا معیار اور سیاسی حساب کتاب ایک غیر انسانی فعل تصور کیا جاتا ہے،اس سلسلے میں انٹر ریجنل اخبار رائے الیوم نے اپنے ایک کالم میں لکھا ہے کہ عرب حکومتیں وہ ہیں جنہوں نے یا تو امریکہ کے حکم پر سیکڑوں ارب ڈالر بھیج کر یا اس ملک میں لاکھوں مسلح عناصر کو ڈالر اور اسلحہ دے کر کر شام کو تباہ کرنے اور اس کا محاصرہ کرنے کی جنگ میں سب سے بڑا کردار ادا کیا ہے، ہمیں امید تھی کہ یہ عرب ممالک اس انسانی تباہی کو اپنی غلطیوں کی تلافی کے لیے استعمال کریں گے اور شام کے زلزلے کے متاثرین کے لیے فوری انسانی امداد بھیجیں گے، لیکن بدقسمتی سے ان میں سے اکثر نے ایسا نہیں کیا حتیٰ کہ اقوام متحدہ اور اس سے متعلقہ اداروں نے بھی امریکی پالیسیوں اور احکامات کے زیر اثر شام اور ترکی کے زلزلہ زدگان کی مدد میں یہی دوہرا معیار اپنا رکھا ہے۔
امریکی انسانی حقوق کا جھوٹ بے نقاب
اس وقت ایک طرف امریکہ انسانی حقوق کے اپنے جھوٹے دعوے جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ عالمی رائے عامہ شام کو امداد فراہم کرنے کے غیر منصفانہ عمل سے ناخوش اور ناراض ہے، امریکی حکومت نے انہیں گمراہ کرنے کے لیے دعویٰ کیا کہ سزار ایکٹ اور امریکی پابندیوں میں ایسا کچھ نہیں ہے جو شامی قوم کو ہنگامی انسانی امداد سے محروم کردے، تاہم شام کی وزارت خارجہ نے امریکہ کے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ شامی ان دوائیوں اور طبی آلات سے بھی محروم ہیں جو خطرات اور بیماریوں کا مقابلہ کرنے میں ان کی مدد کر سکتے ہیں ، کینسر کے علاج کے آلات اور ادویات پر پابندی اس کا بہترین ثبوت ہے،شام کے لوگ بعض اوقات اپنے ہاتھوں سے ملبہ ہٹاتے ہیں اور لوگوں کو ملبے کے نیچے سے سب سے پرانے اوزاروں سے نکالتے ہیں کیونکہ امریکہ نے ملبہ ہٹانے کے لیے درکار آلات اور وسائل پر پابندی لگا رکھی ہے۔ شام کی امدادی اور بچاؤ ٹیموں کے پاس 10 منزلہ عمارت کے ملبے تلے دبے متاثرین تک پہنچنے کے لیے ضروری میکانزم اور آلات نہیں ہیں جس کی وجہ سے زلزلے میں زندہ بچ جانے والوں کو تلاش کرنے یا متاثرین کی لاشیں نکالنے میں کافی وقت لگ رہا ہے۔اگرچہ ترکی اور شام میں آنے والے تباہ کن زلزلے کو 3 دن گزر چکے ہیں، لیکن اب تک صرف ایران، روس، لبنان اور چند دیگر ممالک کو امریکہ اور مغرب کی ناکہ بندی توڑتے ہوئے دیکھا گیا ہے، قطع نظر اس کے کہ اس کے کیا نتائج ہوں گے، مبصرین کا خیال ہے کہ اگر یہ ظالمانہ امریکی پابندیاں نہ ہوتیں تو شام میں آنے والے عظیم زلزلے کے نتائج سے نمٹنا بہت آسان ہوتا اور بڑی تعداد میں لوگ بچ جاتے۔