سچ خبریں:چین کا مقابلہ کرنے کے لیے نئی دہلی واشنگٹن کا ساتھ نہیں دے گا!
کارنگی انسٹی ٹیوٹ کے سینئر محقق ایشلے جے ٹیلس نے 1 مئی 2023 کو خارجہ امور کی ویب سائٹ پر شائع ہونے اپنے مضمون امریکہ کا بھارت پر برا جوا؛ نئی دہلی چین کا مقابلہ کرنے کے لیے واشنگٹن کا ساتھ نہیں دے گا” ہوا، اس بات پر زوردیا ہے کہ چین کا مقابلہ کرنے میں بھارت کو اپنے ساتھ ملانے کی امریکہ کی کوششوں کے باوجود، نئی دہلی چین کے ساتھ کسی بھی فوجی تصادم میں امریکہ کا ساتھ نہیں دے گا اور نہ ہی اس کی صف میں کھڑا ہوگا۔
بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ اور ہندوستان کی سکیورٹی پارٹنرشپ کے میدان میں مختلف خواہشات اور اہداف ہیں، واشنگٹن بھارت سے بھی وہی اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے جو وہ اپنے دوسرے شراکت داروں سے حاصل کرتا ہے جیسے لبرل بین الاقوامی ترتیب میں بھارت کی پوزیشن کو مضبوط بنانا اور ضروری معاملات میں اس آرڈر کا دفاع کرنے کے لیے اپنے وسائل کا استعمال وغیرہ،تاہم نئی دہلی کا نظریہ مختلف ہے، لبرل بین الاقوامی نظم کو برقرار رکھنے کے لیے اس کی کوئی موروثی وفاداری نہیں ہے اور باہمی دفاع میں مشغول ہونے سے بھی اسے نفرت ہے۔
سرد جنگ کے زمانے بھی ہندوستان اور امریکہ نے قومی دفاع پر کوئی سنجیدہ بات چیت نہیں کی کیونکہ نئی دہلی نے زیادہ تر امریکہ یا سوویت بلاک میں شمولیت کے الجھاؤ سے بچنے ہی کی کوشش کی لیکن امریکی کمپنیوں کو ہندوستانی دفاعی مارکیٹ میں گھسنے میں کافی کامیابی ملی ہے،ہندوستانی فوج جس کے پاس تقریباً دو دہائیوں پہلے سے اپنے ذخیرے میں تقریباً کوئی امریکی ہتھیار نہیں تھا، آج اس مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں اس کے پاس نقل و حمل اور بحری طیارے، فوجی اور جنگی ہیلی کاپٹر، اینٹی شپ میزائل اور توپیں بھی امریکی ہیں، پینٹاگون اتحادی جنگی کوششوں کے حصے کے طور پر ایک غیر ملکی فوج کو مشترکہ کاروائیوں میں ضم کرنے کے قابل ہونا چاہتا ہے، تاہم بھارت اس خیال کو مسترد کرتا ہے کہ اس کی مسلح افواج اقوام متحدہ کی چھتری سے باہر کسی بھی مشترکہ فوجی کاروائی میں حصہ لے اس لیے اس نے بامعنی آپریشنل کنورجنسی میں سرمایہ کاری کرنے کی مخالفت کی ہے، خاص طور پر امریکی مسلح افواج کے ساتھ درحقیقت، ہندوستان اپنی سیاسی آزادی کو خطرے میں ڈالنے یا اس کے اقدام کو واشنگٹن کے ساتھ قریبی سیاسی اتحاد کی سمت میں تبدیلی کی علامت کے طور پر دیکھ رہا ہے۔
یاد رہے کہ بائیڈن انتظامیہ اب دفاعی تجارت اور ٹیکنالوجی کے اقدام کی ناکامی کی تلافی کے لیے پوری کوشش کر رہی ہے، پچھلے سال امریکہ نے کریٹیکل اینڈ ایمرجنگ ٹیکنالوجیز اقدام کی نقاب کشائی کی، جس کا مقصد ٹیکنالوجی کی ترقی کے میدان میں حکومت، کاروباری اداروں اور تحقیقی اداروں کے درمیان تعاون کو بنیادی طور پر تبدیل کرنا ہے،یاد رہے کہ امریکہ کے ساتھ ہندوستان کی سکیورٹی پارٹنرشپ طویل عرصے تک غیر متناسب رہے گی اس لیے کہ نئی دہلی چین کے ساتھ تصادم میں امریکہ کا تعاون چاہتا ہے اور ساتھ ہی امریکہ اور چین کے درمیان کسی بھی تصادم میں حصہ لینے سے گریز کرتا ہے تاکہ اس ملک کی اپنی سلامتی براہ راست متاثر نہ ہو۔ اگر واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان مشرقی ایشیا یا بحیرہ جنوبی چین کے ساتھ کوئی بڑا تنازعہ ہوتا ہے تو بھارت یقیناً یہ چاہے گا کہ امریکہ جیت جائے، لیکن اس کا اس جنگ میں خود کو شامل کرنے کا امکان نہیں ہے۔