سچ خبریں: اس رپورٹ میں شام میں اسلامی جمہوریہ ایران کے قونصل خانے پر صیہونی حکومت کی وحشیانہ جارحیت کے میڈیا بیانات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
پیر کی دوپہر تھی کہ دمشق میں ایرانی سفارت خانے کے قریب ایک عمارت میں اچانک دھماکہ عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا، یہ معاملہ کئی پہلوؤں سے اہم تھا، ایک یہ کہ یہ عمارت ایرانی سفارت خانے سے منسلک تھی اور دوسری یہ کہ یہ عمارت ایرانی سفارت خانے کے قونصلر سیکشن کی تھی یا دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ ایران کی سرزمین کا ایک حصہ تھی۔
یہ بھی پڑھیں: صیہونی فوج کا دمشق میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے پر بات کرنے سے انکار
اس خبر کی ایک اور اہمیت یہ تھی کہ ایران کے اعلیٰ ترین فوجی مشیر ، کئی شامی شہری اور ایک لبنانی شہری قونصلر سیکشن میں موجود تھے جو اس حملے کے نتیجے میں شہید ہو گئے۔
جو چیز اس واقعہ کو میڈیا کے نقطہ نظر سے زیادہ اہم بناتی ہے وہ صیہونی حکومت کے حالات، حملے کا مقام اور حملے کا وقت ہے۔
ایسی صورت حال میں کہ جب صیہونی حکومت بین الاقوامی فورمز، عالمی رائے عامہ کے دباؤ اور اندرونی مخالفت کا شکار ہے، ایسا لگتا ہے کہ اس حملے کے ساتھ جنگ ایک نئے اور شاید ناقابل واپسی مرحلے میں داخل ہو جائے گی کیونکہ تل ابیب کو افراتفری کے اس بازار میں کم سے کم یہ یقین ہونا چاہیے ایران جوابی کارروائی ضرور کرے گا۔
اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے، ہم تین علاقائی، غیر علاقائی اور سوشل میڈیا کی سطح پر اس ایونٹ کی خبروں کی کوریج کا جائزہ لیتے ہیں۔
علاقائی میڈیا کوریج
پیر کی سہ پہر کو شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے اطلاع دی کہ شام کے فضائی دفاع نے دمشق کی فضائی حدود میں دشمن کے اہداف کو نشانہ بنایا ہے، اس کے فوراً بعد میڈیا نے دمشق میں ایرانی سفارت خانے کے قریب زوردار دھماکہ کے عنوان سے ایک خبر نشر کی۔
ایرانی سفارت خانے کے قریب کا نام جب پہلی بار خبروں میں نشر کیا گیا تھا تو اس نے خطے کے دیگر ذرائع ابلاغ کی حساسیت کو جنم دیا تھا لیکن چونکہ ماضی میں اس طرح کے حملے ہوتے رہے ہیں، اس لیے اس سے حساسیت کی شدت میں اتنا اضافہ نہیں ہوا۔
چند لمحوں بعد علاقے کے کچھ میڈیا نے ایک اور خبر نشر کی
مڈل ایسٹ نیوز نے خبری ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی کہ دمشق کے نواحی علاقے المزہ میں ایک عمارت کو نشانہ بنایا گیا، لیکن اس دہشت گردانہ حملے کی خبر سب سے پہلے دینے والے شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی اور المیادین چینل نے فوری طور پر نشاندہی کی کہ ایرانی سفارت خانے کے قونصلر سیکشن کو نشانہ بنایا گیا۔
ان دونوں ذرائع ابلاغ اور دیگر عرب میڈیا بشمول الجزیرہ، العربیہ اور درج ذیل اسرائیلی اخبارات Ha’aretz، اور Yediot Aharonot نے اس خبر کو شائع کیا جس سے خدشات میں اضافہ ہوا، المیادین کے نامہ نگار نے رپورٹ دی کہ دمشق پر صیہونی حکومت کے حملے میں قدس فورس کے ایک کمانڈر بریگیڈیئر جنرل محمد رضا زاہدی اور کئی اعلیٰ ایرانی فوجی مشیر شہید ہوگئے، اس وقت ہر کیس کی خواہش تھی کہ یہ اپریل فول ہو لیکن گزرتے وقت نے ظاہر کیا کہ اس بار میڈیا نے سچ بولا ہے اور کوئی اپریل فول نہیں۔
صیہونی اخبار Haaretz نے ” ایران اور حزب اللہ کے لیے ایک سخت دھچکا” کے عنوان سے ایک تجزیے میں لکھا کہ یہ حملہ اور ایک سینئر ایرانی جنرل کا قتل اسرائیل کے شمالی محاذ میں ایک خطرناک موڑ کی علامت ہے۔
تجزیے میں کہا گیا کہ7 اکتوبر کے بعد سے اسرائیل اور حزب اللہ نے پوری طرح سے جنگ سے بچنے کے لیے احتیاط برت رکھی ہے، لیکن دمشق میں ہونے والے اس فضائی حملے سے جس میں شام اور لبنان میں قدس فورس کے کمانڈر کی ہلاکت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل اپنے شمالی علاقوں میں جنگ کی قیمت بڑھانا چاہتا ہے۔
الشرق الاوسط نے بھی یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ جنرل زاہدی شامی انٹیلی جنس سروسز اور حزب اللہ تحریک کے درمیان رابطہ کار تھے ، لکھا کہ وہ 2020 سردار سلیمانی کے قتل کے بعد سے اسلامی انقلابی گارڈ کور کے شہید ہونے والے سب سے نمایاں رکن ہیں۔
یروشلم پوسٹ نے جنرل زاہدی کے قتل کو لبنانی گروپوں کی طرف سے اسرائیل پر راکٹ حملوں پر قابو پانے کے لیے ایک دھچکا قرار دیا ہے۔
اسکائی نیوز عربی پہلے ذرائع ابلاغ میں سے ایک تھا جس نے جنرل زاہدی کا نام شائع کیا اور ان کی اور قدس فورس کے کمانڈر جنرل قاانی کی رہبر انقلاب کے پیچھے نماز پڑھتے ہوئے تصاویر دکھائیں۔
غیر علاقائی سطح پر میڈیا کوریج
روئٹرز نیوز ایجنسی پہلے مغربی اور علاقائی خبروں کے ذرائع میں سے ایک تھی جس نے دمشق میں ہونے والے پیر کے واقعہ کا وسیع پیمانے پر احاطہ کیا۔
یہ خبر رساں ایجنسی ان اولین ذرائع ابلاغ میں سے ایک تھی جس نے المیادین کے ساتھ محمد رضا زاہدی سمیت IRGC کے متعدد کمانڈروں کی شہادت کا اعلان کیا اور اپنے سکیورٹی ذرائع سے اس کی تصدیق شائع کی۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے حملے کی وجہ پر روشنی ڈالی اور چار صیہونی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے دمشق میں ایرانی سفارت خانے کے قونصلر سیکشن پر حملے کی وجہ اسرائیل کو قرار دیا۔
جنرل زاہدی کی شہادت کا حوالہ دیتے ہوئے واشنگٹن پوسٹ لکھتا ہے کہ اسرائیل نے برسوں سے ایران اور اس کے اتحادیوں کے خلاف شام میں خاص طور پر غزہ میں حماس کے خلاف چھ ماہ کی فوجی کشمکش کے دوران حملے کیے ہیں لیکن پیر کا حملہ اپنے محل وقوع — ایک سفارتی سائٹ جسے روایتی طور پر فوجی تنازع سے مستثنیٰ ہونا چاہیے — اور ان لوگوں کی اہمیت کے اعتبار سے جنہیں نشانہ بنایا گیا ہے،غیر معمولی ہے۔
اس خبر کا احاطہ کرتے ہوئے Axios نے ایک امریکی اہلکار کے حوالے سے لکھا ہے کہ امریکہ نے تہران کو مطلع کیا ہے کہ اس کا دمشق میں اس ملک کے قونصل خانے پر اسرائیلی حملے سے کوئی تعلق نہیں یا اس کے بارے میں ہمیں پہلے سے معلومات نہیں تھیں، ایسا لگتا ہے کہ اس میڈیا کی بنیاد یہ ہے کہ ایران اس حملے کا ذمہ دار امریکہ کو ٹھہراتا ہے۔
اسرائیلی اور امریکی حکام نے Axios کو بتایا کہ اسرائیل نے اپنے فضائی حملے سے چند منٹ قبل بائیڈن انتظامیہ کو مطلع کیا تھا لیکن اس نے امریکہ سے گرین لائٹ نہیں مانگی۔
Axios کے مطابق، ایک امریکی اہلکار نے کہا کہ اسرائیل نے امریکہ کو حملے کے بارے میں تفصیلات نہیں بتائیں، اور یہ کہ امریکی فریق کو اس وقت مطلع کیا گیا جنگ اسرائیلی جنگی طیارے پہلے ہی فضا میں موجود تھے، اسرائیلیوں نے امریکہ کو یہ نہیں بتایا کہ وہ ایرانی سفارت خانے کے احاطے کی عمارت پر بمباری کرنے جا رہے ہیں۔
گارڈین اخبار نے بھی اس خبر کی کوریج کی اور لکھا کہ تہران میں ایرانی رہنماؤں نے سفارتی عمارت کو نشانہ بنانے کو غیر معمولی قرار دیتے ہوئے جوابی کارروائی کا وعدہ کیا۔
گارڈین نے ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کا حوالہ دیا اور لکھا کہ ہم اس جارحیت کو تمام سفارتی معیارات اور بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں، بنیامین نیتن یاہو غزہ میں پے در پے ناکامیوں اور اپنے مقاصد کے حصول میں ناکامی کے باعث ذہنی توازن مکمل طور پر کھو چکے ہیں۔
روس کی ٹاس نیوز ایجنسی نے اس واقعہ کی خبروں کی کوریج کرتے ہوئے ایران کے ردعمل کا ذکر کیا۔
سوشل میڈیا میں کونج
ان دنوں سوشل میڈیا کو کسی بھی خبر یا واقعہ کے سلسلہ میں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، بعض صورتوں میں معلومات اور خبروں کی فوری اور براہ راست منتقلی کی وجہ سے رائے عامہ پر اس کا اثر و رسوخ سرکاری میڈیا سے کم نہیں ہے جبکہ بعض صورتوں میں اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔
دمشق میں ایرانی سفارت خانے کے قونصلر سیکشن پر صیہونی حکومت کے حملے کی خبر کو سوشل میڈیا کے صارفین نے بڑے پیمانے پر دیکھا، خاص طور پر ایکس نیٹ ورک (سابقہ ٹویٹر)، جس کی نوعیت دیگر پلیٹفارموں سے زیادہ ہے۔
اس حملے کا ایک انتہائی گھناؤنا اور ڈھٹائی کا ردعمل اسرائیلی حکومت کے فارسی بولنے والے ترجمان نے کیا، ان حملوں کے جواب میں بن سباتی X میں لکھتے ہیں کہ اس بار دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر حملہ؛ اس کام کا مطلب اور پیغام کیا ہے اور آپ اسے کیا بنانا چاہتے ہیں؟ لیکن دوسروں کا ردعمل مختلف تھا، Ben Ehrenreich، جو X پلیٹ فارم کے قلمکاروں اور کارکنوں میں سے ایک ہیں، لکھتے ہیں کہ اور آج ایک سفارت خانے پر بمباری! جن ممالک کو امریکہ نے غیر قانونی طور پر بدمعاش ریاستوں کا نام دیا ہے ان میں سے کوئی بھی اتنا بے حس، لاپرواہ اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والا نہیں ۔
طالبان کی وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے بھی X میں اسرائیل کی کارروائی کی مذمت کی اور اسے سفارتی اصولوں کی صریح خلاف ورزی اور وسیع تر علاقائی عدم تحفظ کو ہوا دینے کی کوشش قرار دیا۔
برطانوی پارلیمنٹ کے نمائندے جارج گیلوے نے بھی اس بارے میں لکھا کہ بلاشبہ دمشق میں جو کچھ ہوا اس کا جواب صرف ایران ہی نہیں دے گا بلکہ روس بھی اپنے 50 سالہ اتحادی شام کی خود مختاری کی ایسی وحشیانہ خلاف ورزی کی اجازت نہیں دے سکتا۔
مزید پڑھیں: دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر صیہونی حملے پر حماس کا ردعمل
امریکہ میں اسرائیل اور مشرق وسطیٰ کے مسائل کی ماہر ٹریتا پارسی کہتی ہیں کہ بائیڈن نے بڑا دعویٰ کیا اور اعلان کیا کہ وہ جنگ کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں،اب سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل نے ایرانی سفارت خانے پر یعنی ایرانی سرزمین پر حملہ کیا ہے تاکہ ایک بڑی جنگ کا جواز پیش کرنے کے لیے ردعمل پیدا کیا جا سکے، کیا بائیڈن نے بھی علاقائی جنگ کے حوالے سے اسرائیل کو گرین لائٹ دی ہے؟
اقوام متحدہ میں ایک سفارت کار محمد صفا بھی اس بارے میں لکھتے ہیں کہ اسرائیل نے دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر بمباری کی اور ویانا کنونشن اور فلسطین، لبنان، شام اور ایران کی خودمختاری کی ناقابل یقین خلاف ورزی کی۔