🗓️
سچ خبریں:2019ء میں ایران کے اسلامی انقلاب کی 40ویں سالگرہ سے پہلے جان بولٹن جیسے کچھ ایران مخالف امریکی حکام اس انقلاب کے خاتمے کی باتیں کر رہے تھے تاہم اسلامی انقلاب نے اپنی مخصوص خصوصیات جیسے "جمہوریہ”، "اسلامیت ” "اور "رہبری” جو اسے دنیا کے دوسرے عظیم انقلابات کی کے ممتاز بناتے ہیں، نے ثابت کر دیا ہے کہ امریکی دشمنوں کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔
ایران کے اسلامی انقلاب کی 44 ویں سالگرہ کا موقع ہے جسے اس ملک میں عشرۂ فجر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ایک بار پھر وائٹ ہاؤس کے حکام کے دعوؤں اور تصورات کی یاد دلاتا ہے کہ کچھ سال پہلے ٹرمپ کے تاریک دور میں،اسلامی انقلاب کی 40ویں سالگرہ کے جشن سے پہلے، جو 11فروری 2019ء کو منایا جانا تھا ،اس امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ تھی، اس وقت کے وائٹ ہاؤس کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر جان بولٹن نے پیرس میں منافقین کے دہشت گرد گروہ کے اجلاس میں ایران کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کے معاندانہ بیانات کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ ایران کے اسلامی انقلاب کو چالیسویں سالگرہ نہیں منانے دی جانا چاہیے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے ایران کے حوالے سے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کے موجودہ فیصلے کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ یہ ملک اپنے انقلاب کی 40ویں سالگرہ نہ منا سکے،یاد رہے کہ اسلامی جمہوریہ کی تباہی پر مبنی ان کی آخری پیشین گوئی انقلاب کی 40ویں سالگرہ کے جشن سے پہلے کی تھی جسے سچ ثابت کرنے کے لیے انہوں نے ہر ممکن کوشش کر لی،منافقین کو سامنے لائے، سلطنت طلبوں کو میدان میں اتارا،خطے میں ایران کے خلاف تھینک ٹینک بنائے،لاتعداد ذرائع ابلاغ کو استعمال کیا،یہاں تک کہ کچھ عرب ممالک کے رنگین مزاج حکمرانوں کو دؤیا لیکن ایران ایک بار ایک بار پھر ہر میدان میں ان کے خلاف کھڑا ہو گیا اور11فروری 2019ء کو اسلامی انقلاب کی 40ویں سالگرہ کی تقریبات اور اور متعدد پروگرام منعقد کر کے پوری دنیا خاص طور پر اپنے بدخواہوں اور کھلے اور چھپے دشمنوں کو کو بتا دیا کہ یہ انقلاب زندہ ہے، اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے ایوان نمائندگان کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے ساتھ ایک نشست میں ایک نمائندے کے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کی حکومت کی تبدیلی کے لیے اس ملک کی داخلی اپوزیشن کے ساتھ مل کر کام کرنا اپنی پالیسی بنالی ہے۔
ایک دعوے کی ڈھٹائی سے تکرار
اسلامی انقلاب کی 40ویں سالگرہ کے موقع پر ہونے والے روڈ مارچ میں لاکھوں ایرانیوں کی شرکت کے بعد بولٹن نے ٹویٹر پیغام میں اپنے ایران مخالف بیانات کو دہرایا اور دعویٰ کیا کہ 40 سال بعد بھی اسلامی جمہوریہ ایران اپنے شہریوں کے حقوق کے تحفظ اور دفاع کے سلسلہ میں کیے جانے والے اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام ہے،بولٹن نے مزید کہا کہ ایرانی حکومت کی 40 ویں سالگرہ صرف چار دہائیوں کی ناکامی اور ادھورے وعدوں کی نمائندگی کرتی ہے، اس امریکی عہدیدار نے ڈھٹائی سے بھرپور دعوا ایسے وقت میں کیا جبکہ اس سے پہلے کا اس کا یہ دعویٰ کہ ایران اسلامی انقلاب کی 40ویں سالگرہ نہیں دیکھے گا،دنیا کی آزاد شخصیات، آزادی کے متلاشیوں اور ایران بھر کے لوگوں میں تضحیک کا باعث بنا ،یاد رہے کہ اس وقت بولٹن، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے ساتھ، ان تین افراد میں سے ایک تھے جو ایران میں اس سال کے روڈ مارچ کے دوران زیادہ تر لوگوں کے نعروں اور عوامی بیزاری کا نشانہ بنے تھے۔
یاد رہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو مختلف طریقوں سے مسخر کرنے کی پالیسی، جسے "حکومت کی تبدیلی” کہا جاتا ہے، جمی کارٹر اور طبس میں اس کی فوجی کاروائی کے وقت سے مختلف امریکی حکومتوں میں ہمیشہ سے جاری ہے، فرق یہ ہے کہ کچھ حکومتیں، جیسے ٹرمپ انتظامیہ اس کا اظہار کرنے سے گریز نہیں کرتیں اور کچھ، اوباما اور بائیڈن کی طرح اس کا اظہار کرنے سے پرہیز کرتی ہیں اور جیسا کہ کچھ کہتے ہیں، لائٹس بند رکھتے ہیں،بولٹن کے واضح ایران مخالف بیانات اس وقت سامنے آئے تھے جب 2008 میں امریکہ کے سابق صدر براک اوباما نے اقتدار سنبھالا ، خبری ذرائع نے بتایا کہ انہوں نے اپنی سابقہ حکومتوں کے ایران کے نظام حکمرانی کو اعلانیہ طور پر تبدیل کرنے کے منصوبے کو خفیہ کر دیا،اس لیے امریکی حکمران 7 عشرے پہلے سے، یعنی جب سے انہوں نے بغاوت کا منصوبہ بنا کر ایرانی عوامی حکومت کا تختہ الٹ دیا ،کرۂ ارض پر خاص طور پر اسلامی انقلاب کے بعد ایرانی عوام کے سب سے بڑے دشمن ہیں بلکہ اسلامی انقلاب کے بعد سے یہ دشمنی نفرت میں بدل گئی ہے جو مختلف ثقافتی، سیاسی، اقتصادی اور حتیٰ کہ سائنسی میدانوں میں انقلاب اسلامی کی فتح کی ہر سالگرہ کے بعد مزید ہوئی ہے ، یقیناً اب یہ ایرانی عوام سے انتقام میں بدل چکی ہے جس کی ایک مثال عراق کے مہمان کی حیثیت سے اس ملک میں داخل ہونے والے قدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی بغداد بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب امریکی ریاستی دہشت گردی کے نتیجہ میں ہونے والی شہادت کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔
جب امریکی حکمران ایرانی عوام سے انتقام نہ لے سکے تو انہوں نے نفرت اور دشمنی کے اظہار کے لیے توہین کرنے کا آسان ترین راستہ اختیار کیا جس کے تحت اوباما انتظامیہ میں وینڈی شرمن نے ایرانیوں کو دھوکے باز جین کا حامل کہا ، ان کے بعد ٹرمپ نے ایرانی عوام کو دہشت گرد کہا اور اب بائیڈن انتظامیہ پابندیوں کے دباؤ کے علاوہ آئی آر جی سی کو دہشت گرد گروپوں کی فہرست میں شامل کرنے کی کوشش کر رہی ہے،اس دوران جو بات واضح اور عیاں ہے وہ یہ ہے کہ ایرانی قوم کے دشمنوں میں سے کوئی بھی اس فہم و ادراک اور ایران کے اسلامی انقلاب کی بقا کا راز نہیں سمجھ سکتا کہ کیوں تمام فوجی، مالی اور سیاسی حربوں کے استعمال کے باوجود ان کی پالیسیوں ، صلاحیتوں اور سفارت کاری کو مسلسل ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ بلکہ اس سے بڑھ کر ایرانی ان سازشوں اور دشمن کے منصوبوں کی ناکامی کو انقلاب اسلامی کی راہ میں مزید پیشرفت کے تجربے کے طور پر استعمال کرتے ہیں جس کی واضح مثال ایران کے خلاف صدام حسین کی 8 سالہ مسلط کردہ جنگ ہے جس میں دنیا کے 61 سے زائد ممالک شامل تھے۔یہی وجہ ہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب کے رہنما آیت اللہ خامنہ ای نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ جب تک امریکی حکومت برائی، مداخلت، بددیانتی اور شرارت کی بنیاد پر چلتی رہے گی، ایران کی طاقتور قوم کی زبان سے امریکہ مردہ باد کا نعرہ لگتا رہے گا، اس سلسلے میں کہ آج تک اسلامی انقلاب کو ناکام بنانے کا دشمنوں کا ہر منصوبہ کیوں ناکام ہوا ، ہمیں ایرانی انقلاب اور دنیا کے دوسرے عظیم انقلابات کے درمیان فرق کو دیکھنا چاہیے،انقلابِ فرانس، انقلابِ روس وغیرہ جیسے انقلابات کے ساتھ اسلامی انقلاب کا تقابلی موازنہ ہمیں اس انقلاب کی جہتوں اور اثرات کو زیادہ درست طریقے سے سمجھنے کے لیے ایک مناسب تجزیاتی نمونہ فراہم کرتا ہے۔
ایرانی انقلاب اور دنیا کے دو اہم ترین انقلابات میں فرق
دنیا کے عظیم انقلابات میں ایران کے اسلامی انقلاب کے علاوہ 1789ء کا فرانسیسی انقلاب بحیثیت لبرل انقلاب اور 1917ء کا روسی انقلاب بحیثیت بائیں بازو کا انقلاب دنیا کے دیگر اہم انقلابات ہیں، جن میں اور ایرانی انقلاب کچھ اہم فرق ہیں؛ انقلاب روس اور ایرانی اسلامی انقلاب کے درمیان سب سے اہم فرق انقلاب کے نظریات کی صداقت اور بنیاد ہے،اسلامی انقلاب کے نظریات انسانی فطرت کے مطابق ہیں اور جامعیت رکھتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ انقلاب انسانی فطرت سے کبھی اجنبی نہیں ہوتا اور کبھی بوڑھا نہیں ہوتا، تاہم، روسی انقلاب کے نظریات نامکمل انسانی عقل پر انحصار کرتے تھے جو کچھ عرصے بعد غلط ثابت ہوئے اور نتیجتاً آنے والی نسلوں کی حمایت سے محروم رہے، دوسری طرف روسی انقلاب کی قیادت اور عوام کے درمیان نیز انقلاب کی قیادت کا ملکی معاشرے کی ثقافت سے کوئی تعلق نہیں تھا، اسی وجہ سے عوام نے روسی انقلاب کے آغاز میں یا فتح کے بعد اس انقلاب میں کوئی نمایاں کردار ادا نہیں کیا جب کہ اسلامی انقلاب میں لوگوں کو انقلاب کے نظریات کے بارے میں جو علم تھا اور چونکہ انہوں نے ان نظریات کو اپنی ثقافت سے ہم آہنگ دیکھا اور انقلاب کی قیادت پر عوام کے اعتماد کے ساتھ اس کام کو بخوبی انجام دیا نیز آج 44 سال سے زیادہ گزرنے کے بعد بھی جاری باقی ہے۔
فرانسیسی انقلاب کے مطالعہ میں 18ویں صدی میں فرانسیسی قوم کے نظریات اور خواہشات میں بہت سے فرق دیکھے جا سکتے ہیں؛ یعنی مقصد اور نعرہ کی وحدت نہیں ہے، کبھی آئین پرستی نمایاں ہوتی ہے اور کبھی ریپبلکنزم اور کبھی سلطنت سیاسی منظر نامے پر لوٹ آتی ہے،کبھی انصاف کی تلاش اور کبھی آزادی کی تلاش پر روشنی ڈالی گئی ہے ، یہ بازی اور دوغلا پن اس کے انحراف کی ایک وجہ ہے،یعنی عام طور پر فرانس نے 1789 کے آس پاس سے دسیوں سال بعد تک امن نہیں دیکھا ،یہ مسلسل حکومتیں، نعرے، اہداف، لیڈر اور سیاسی قوتیں بدلتا رہا، انقلاب کے بعد فرانس کے نظریات اور سیاسی رہنماؤں میں استحکام کا فقدان بالکل واضح ہے اور یہ مسئلہ انقلاب فرانس کے کمزور نکات میں سے ایک ہے۔
جبکہ اسلامی انقلاب کے دوران سیاسی قوتیں اور عوام ایک مشترکہ ذہنی ہدف پر یقین رکھتے تھے،جب اسلامی جمہوریہ کی بات آئی تو اس کے بارے میں سب کا ایک ہی خیال تھا اور اسلامی جمہوریہ کے بانی امام خمینی پر اپنے اعتماد کی بنیاد پر لوگوں کی بھاری اکثریت نے ہاں میں ووٹ دیا،خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی انقلاب اور دوسرے انقلابات کے درمیان بنیادی فرق میں سے ایک اس انقلاب کی بنیاد ہے، ایرانی قوم کا انقلاب ایک انقلاب تھا جس کی بنیاد اسلامی ، مذہبی اور روحانی اقدار پر تھی یہی فرانس اور روس کے انقلابات سے اس کا اہم امتیاز ہے،ایک اور فرق لوگوں کی موجودگی کے معیار اور مقدار نیز اسلامی تحریک میں ان کے کردار سے متعلق ہے، اپنی تشکیل اور فتح کے تمام مراحل میں اس انقلاب نے ہر حالت میں لوگوں کی موجودگی کے عنصر پر گہرا انحصار کیا ہے،مذہبی قیادت کا عنصر بھی اسلامی انقلاب کی خاص خصوصیات میں سے ایک ہے، یہ انقلاب ایک مسلمان عالم اور فقیہ کی قیادت میں ایک تحریک کی صورت میں سامنے آیا اور اس کی قیادت میں جماعتوں، گوریلا ، متعصب گروہوں اور فوجی افسران وغیرہ کا کوئی کردار نہیں تھا،دوسرے انقلابات کے مقابلے میں اسلامی انقلاب کی ایک اور منفرد خصوصیت اس کا اپنے بنیادی اہداف کی بنیاد پر استقامت اور تسلسل نیز اپنے اصولوں اور نظریات سے منحرف نہ ہونا ہے جو آج 44 سال گزرنے کے باوجود امریکہ اور انگلینڈ اور فرانس سمیت بعض یورپی ممالک جیسے دشمنوں کی تمام تر عداوتوں کے باوجود مضبوطی کے ساتھ ان کا مقابلہ کر رہا ہے، اور اسی مضبوطی کے ساتھ اپنی 44ویں سالگرہ میں داخل ہو رہا ہے۔
مشہور خبریں۔
ہم عمان میں ایران اور امریکہ کے درمیان خفیہ مذاکرات کی تصدیق نہیں کر سکتے: مسقط
🗓️ 31 مئی 2022سچ خبریں: عمان کے وزیر خارجہ بدر بن حمد البوسعیدی نے کہا
مئی
فلسطینی مزاحمتی تحریک کی کامیابی کے بعد آیت اللہ خامنہ ای کا دنیا کے مسلمانوں کے نام پیغام
🗓️ 22 مئی 2021سچ خبریں:ایران کے روحانی پیشوا اور اسلامی انقلاب کے رہبر آیت اللہ
مئی
اسرائیل اپنے اتحادیوں پر سکیورٹی بوجھ بن گیا ہے: عطوان
🗓️ 5 مارچ 2022سچ خبریں:عطوان نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ صیہونی
مارچ
دو صہیونی بسوں میں مشتبہ آتشزدگی
🗓️ 20 جون 2022سچ خبریں:اسرائیلی میڈیا ذرائع نے اطلاع دی کہ مقبوضہ فلسطین کے وسط
جون
صہیونیوں کے خلاف فلسطین کا نیا انتفاضہ تیار
🗓️ 22 فروری 2022سچ خبریں: فلسطینی قیدیوں کی کمیٹی نے اطلاع دی ہے کہ ایک
فروری
جو بائیڈن نے یوکرین کو 600 ملین ڈالر کی امداد کا حکم دیا
🗓️ 26 فروری 2022سچ خبریں: امریکی صدر جو بائیڈن نے محکمہ خارجہ کو یوکرین کو
فروری
امریکہ کا مشرق وسطیٰ میں تباہ کن انداز
🗓️ 12 اکتوبر 2024سچ خبریں: روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے اعلان کیا کہ
اکتوبر
چین اور شام کی قربت تل ابیب کی گھبراہٹ کا باعث کیوں؟
🗓️ 3 اگست 2022سچ خبریں:چین اور شام نے خاص طور پر تعمیر نو کے شعبے
اگست