سچ خبریں: نہ اردن کی سیاسی دفاعی صلاحیت اور نہ ہی عرب ممالک اور اسلامی دنیا کی رائے عامہ کا موجودہ ماحول عرب حکمرانوں کے مغرب کے ساتھ تعلق کو درست ثابت کرتا ہے۔
صیہونی حکومت پر اسلامی جمہوریہ ایران کے جوابی حملے کا مقابلہ کرنے کے لئے امریکہ، انگلینڈ اور فرانس کے ساتھ اردن کے تعاون نے علاقے کے سیاسی اور میڈیا حلقوں میں کئی سوالات پیدا کیے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ کی پٹی میں صیہونی بربریت کے بارے میں اردن کا موقف
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کیا اردن ، جیسا کہ اس ملک کے حکام نے دعویٰ کیا ہے، صرف اپنی فضائی حدود کے دفاع کے لیے مغربی ممالک کے ساتھ کھڑا ہوا یا کوئی اور معاملہ ہے؟ اس رپورٹ کا ایک اور مقصد مغربی طاقتوں کے ساتھ اردن کی صف بندی کے نتائج کو ظاہر کرنا ہے۔
تجزیہ کاروں کے بیانات، اردن میں ہونے والے مظاہروں اور علاقائی سفارت کاری کے دیگر پہلوؤں پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ تو اردن کی سیاسی دفاعی صلاحیت اور نہ ہی عرب ممالک اور عالم اسلام کی رائے عامہ کا موجودہ ماحول اس ملک کے مغرب کے ساتھ تعاون کا جواز پیش کر سکتا ہے،عمان کے حکام کو بہت جلد احساس ہوا کہ انہیں تہران کے خلاف کارروائی نہیں کرنی چاہیے۔
دفاع کی ناگزیریت یا علمی غلطی؟
عمان میں حکام نے اعلان کیا کہ ان کی کوشش صرف اردن کی اپنی فضائی حدود کا دفاع کرنا ہے لیکن مغربی تجزیہ کاروں نے بھی اردن کے اس جواز کو قبول نہیں کیا اور برطانوی اخبار گارڈین کے تجزیہ کاروں میں سے ایک پیٹرک ونٹور کے مطابق، اردن کی حکومت نے اس اقدام سے خود کو ایک مشکل اور عجیب و غریب پوزیشن میں ڈال دیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اردن کے بادشاہ شاہ عبداللہ دوم کی حکومت کو اندرونی طور پر بھی عوام کے احتجاج کا سامنا کرنا پڑا اور اردنی فضائیہ اور ملٹری انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے ایرانی ڈرونز کو روکنے کی کوششیں ان شہریوں کے احتجاج کا باعث بنیں جو اسرائیلکو جواب دینے کے حق میں تھے اور فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت کر رہے تھے۔
اردن کے شاہ عبداللہ دوم جنہوں نے پہلے غزہ کے لیے امدادی تنظیم کی حمایت کی تھی اور ان کی اہلیہ اور ملکہ رانیہ نے فلسطینیوں کا دفاع کیا تھا لیکن اب اس نے خود کو ایک ایسی پوزیشن میں ڈال دیا ہے جو علاقے میں اس کی طاقت کی صلاحیت سے میل نہیں کھاتا۔
دی گارڈین نے دو دیگر اہم مسائل کی طرف اشارہ کیا جو بیرونی اور اندرونی دونوں صورتوں کے خلاف اردن کے موقف پر روشنی ڈالتے ہیں:
1۔ اسرائیل کے ساتھ اردن کی مشترکہ سرحد اور جغرافیائی سیاسی اور سیکورٹی حساسیت۔
2۔ اردن میں فلسطینی پناہ گزینوں کی سب سے بڑی آبادی کی موجودگی۔
اگرچہ گارڈین اور دیگر مغربی ذرائع ابلاغ نے اس حقیقت کو نظر انداز کرنے کو ترجیح دی ہے لیکن یہ کہنا ضروری ہے کہ اردن میں مقیم فلسطینی پناہ گزین غیر فعال اور غیر جانبدار آبادی نہیں ہیں،سیاسی اور سماجی عمل اور ردعمل کے لحاظ سے ان میں وسیع اور موثر تحرک موجود ہے نیز ان میں سے اکثر مسئلہ فلسطین کے تئیں اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کی حمایت کرتے ہیں۔
بلاشبہ، صرف اردنی نژاد فلسطینی شہری ہی نہیں جنہوں نے عمان کے حالیہ طرز عمل پر احتجاج کیا بلکہ ان کے علاوہ اردنی باشندوں کی بھی ایک قابل ذکر تعداد نے بھی شاہ عبداللہ دوم کی حکومت کے اقدام کی شکایت کی اور عمان میں امریکی سفارت خانے کے سامنے مظاہرین کا جمع ہونا ایک اہم مسئلہ تھا جس نے عمان کے سیاسی حکام کو تشویش میں مبتلا کر دیا نیز سوشل میڈیا پر ہزاروں اردنی اور فلسطینی صارفین نے اردن کے بادشاہ کے فیصلے پر احتجاج کیا جس کے بعد اس ملک کو جلد ہی احساس ہوگیا کہ اس نے غلط راستے پر قدم رکھا ہے۔
اردن کے بارے میں اسرائیل کا مکروہ اقدام
اردن کے خلاف صیہونی حکومت کے معاندانہ اقدامات کی ایک طویل اور پرانی تاریخ ہے اور موجودہ حالات میں اس نے عمان کے لیے پانی اور سلامتی کے شعبوں میں بہت سے مسائل پیدا کیے ہیں لیکن اس وقت تل ابیب خود کو اردن کا دوست اور اتحادی ظاہر کرنا چاہتا ہے۔
اردن کے خلاف صیہونی حکومت کے مکروہ رویے کی ایک اہم جہت یہ ظاہر کرنے کی کوشش تھی کہ اسرائیل کے خلاف اسلامی جمہوریہ ایران کے ڈرون میزائل حملے کا سامنا کرنے کی صورت میں اردنی فضائیہ نے بالکل اسرائیل کے قریبی اتحادی کی طرح کام کیا، یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ اس کہانی میں اردن کی شرکت کا امریکہ، انگلینڈ اور فرانس کی شرکت سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔
تاہم صیہونیوں نے جو پہلے ہی واضح طور پر ظاہر کر چکے ہیں کہ وہ عرب ممالک کے درمیان نفسیاتی جنگ اور تفرقہ بازی پر مبنی کھیل شروع کرنے کے شوقین ہیں، ظاہری طور پر اردن کو دوست کہتے ہیں لیکن باطنی طور پر انہوں نے عرب دنیا میں اردن کی ساکھ پر سوالیہ نشانی لگانے کی بنیاد فراہم کی۔
ایک پیغام جو بہت جلد موصول ہوا
گزشتہ دنوں اردنی حکام اور اس ملک کے سفارتی عہدیداروں کے موقف پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عمان کو بہت جلد ضروری سیاسی پیغام مل گیا ہے، اس دوران جرمنی کا جانبدارانہ اقدام بھی اردن کو اسرائیل کے ساتھ تعاون کی راہ پر گامزن نہ کر سکا۔
حالیہ مہینوں میں جرمن وزیر خارجہ بربوک ویر کا دورہ اردن غزہ کے حوالے سے برلن کی متعصبانہ پالیسیوں کے تسلسل میں ہوا ہے، اس دوران جرمنی نے صیہونی حکومت کی کھلی حمایت کی ہے اور اب وہ عرب ممالک کو اسرائیل کے اتحادیوں کی صف میں شامل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
تاہم اردنی وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے کہا کہ جب تک قابض حکومت موجود ہے، امن نہیں ہو سکتا اور جب تک اسرائیل فلسطینیوں کے حقوق کو نظر انداز کرتا رہے گا، سلامتی نہیں ہو سکتی، سلامتی کونسل کو جنگ بندی کا پابند فیصلہ کرنا چاہیے اور اسرائیل کو رفح پر حملے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
ایران اور اردن کے وزرائے خارجہ کے درمیان نیویارک میں ہونے والی ملاقات میں ایمن الصفدی نے ظاہر کیا کہ گزشتہ دنوں کے دوران اردن نے علاقائی مسائل کا بامقصد اور واضح جائزہ لیا ہے اور وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ایرانی وزیر خارجہ کا فیصلہ کیا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے صیہونی حکومت کو جواب دینا خطے کے لیے ایک قابل قدر کامیابی ہے، اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفدی نے غزہ کے خلاف جنگ کو روکنے کے لیے ایران کی سفارتی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ فلسطین کا مسئلہ اردن کی اولین ترجیح ہے اور یہ عرب ملک غزہ کے خلاف جنگ کے خاتمے کے لیے کوششیں جاری رکھے گا۔
ایمن صفدی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اردن اور ایران کے دونوں ممالک جنگ کے خاتمے کی ضرورت پر متفق ہیں،غزہ کو جلد از جلد ایک مشترکہ نقطہ نظر سمجھا اور اس سمت میں کوششیں جاری رکھنے پر زور دیا۔
دوسری جانب اردن اور بحرین کے بادشاہ حمد بن عیسیٰ آل خلیفہ اور شاہ عبداللہ دوم کی ملاقات میں اس بات پر زور دیا گیا کہ عالمی برادری کے لیے غزہ میں فوری جنگ بندی کی قراردادوں پر عمل درآمد ضروری ہے۔
انہوں نے مغربی کنارے میں فلسطینی عوام کے خلاف صیہونی آبادکاروں کے جارحانہ اقدامات کے خلاف بھی خبردار کیا۔ اردن کے بادشاہ نے عراقی صدر عبداللطیف رشید سے ملاقات میں غزہ میں جنگ بندی اور مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل نیز فلسطینی عوام کے تمام جائز حقوق کی ضمانت دینے پر بھی زور دیا۔
مزید پڑھیں: خطے میں کشیدگی کیسے ختم ہو سکتی ہے؟ اردنی وزیرخارجہ کی زبانی
مندرجہ بالا آراء اور موقف کا خلاصہ اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ صیہونی حکومت کے مذموم ہدف کے برخلاف، اردن صیہونیت کے حامیوں کے مذموم منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی راہ پر گامزن نہیں ہے اور ایرانی آپریشن نے صیہونیت کا مقابلہ کرنے کے لیے خطے کے ممالک میں خود اعتمادی کی لہر دوڑا دی ہے۔