سچ خبریں:تہران ریاض تعلقات کی بحالی کے بعد ایران اور مصر کے اتحاد نے خطے میں صیہونی امریکی منصوبے کو کئی محاذوں پر مہلک دھچکا پہنچایا جس کی انہیں بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔
حالیہ دہائیوں میں پہلی بار مصر کی جانب سے ایران کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی خواہش کے جواب میں ایران نے واضح طور پر کہا کہ وہ اس کا خیر مقدم کرتا ہے، ایران کے مذہبی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای نے پیر کی صبح عمان کے سلطان ہیثم بن طارق کے ساتھ گفتگو میں مصر کی اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی خواہش کے بارے میں کہا کہ ہم اس موقف کا خیرمقدم کرتے ہیں اور ہمیں اس سلسلے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
العہد ویب سائیٹ نے تہران اور قاہرہ کے درمیان تعلقات کی اہمیت نیز اس پر تل ابیب اور واشنگٹن کے خوف اور عدم اطمینان کی وجہ پر ایک تجزیہ شائع کیا جس لکھا ہے کہ مصر اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی اوراسرائیلی میڈیا کی ناراضگی اور خوف پر مبنی رپورٹس کو شائع کوئی ضرورت نہیں تھی مگر یہ کہ ہمیں پتا چل گیا کہ اس سے خطے میں صہیونی منصوبے کو نقصان پہنچے گا بالخصوص چونکہ ایران اور مصر کے تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور ان تعلقات کو منقطع کرنے کی مسلسل کوشش ایک ایسا معاملہ ہے جس کا براہ راست تعلق خطے میں امریکی اور صیہونی منصوبے کی نوعیت سے ہے۔
ایران اور مصر کے تعلقات کی خرابی کے پس پردہ حقائق
تجزیہ نگار لکھتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کا منقطع ہونا صیہونی امریکی حکمت عملی کے دو منصوبوں سے تعلق رکھتا تھا جن میں سے ایک نئے مشرق وسطیٰ کےپیریز کا منصوبہ اور دوسرا یوریشین-امریکی تسلط کا منصوبہ جس میں مصر اور اس کے گردونواح سے لے کر ایران اور اس کے آس پاس کے ممالک کو الگ کرنا تھا، تجزیہ نگار صہیونی میڈیا کے تجزیوں کو جو مصر اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی کو ایک ایسی صورتحال سمجھتے ہیں جو تل ابیب کے مفاد میں نہیں ہے، بالکل ٹھیک سمجھتے ہیں کیونکہ صہیونی میڈیا اس معاملے کو اس اتحاد کو ختم کرنے کے نقطہ نظر سے دیکھتا ہے جو اسرائیل نے تہران کی سیاسی اور اقتصادی ناکہ بندی کے لیے عرب ممالک کے ساتھ بنایا تھا۔
ہرزوگ کے آذربائیجان کے سفر کا قاہرہ اور تہران کی قربت سے تعلق
اس تجزیے میں کہا گیا ہے کہ شاید یہ ماحول صیہونی حکومت کے سربراہ کے آذربائیجان کے دورے کی براہ راست وجہ ہے تاکہ ایران کے ساتھ دشمنی کا ایک اور محاذ کھول کر اس محاذ کے نقصان کی تلافی کی جا سکے تاکہ ایران کے ساتھ ایک اور دشمنی محاذ کو سرحدوں پر فعال کیا جا سکے، اس محاذ کی احتیاط سے نگرانی کی جانی چاہیے خاص طور پر ایسے وقت میں جبکہ ایران کو افغانستان کے ساتھ اپنی سرحدوں اور دوسرے علاقوں جیسے کردستان میں متعدد خطرات کا سامنا ہے، جہاں موساد کے قدموں کے نشانات دیکھے جا سکتے ہیں۔
تہران اور قاہرہ کی قربت سے تل ابیب کی ناراضگی کی وجوہات
یہاں مصر اور ایران کے تعلقات کی اہمیت، اس کے دوبارہ شروع ہونے پر صیہونیوں کے عدم اطمینان کی وجوہات اور اس کو صہیونی منصوبے اور اس سے پہلے امریکی منصوبے کے لیے ایک دھچکا کیوں سمجھا جاتا ہے، اس پر توجہ دی جانی چاہیے۔
ان تعلقات کی اہمیت کو دو سطحوں پر پرکھا جانا چاہیے، پہلا عمومی ہے جو ان تعلقات کی عمومی اہمیت سے متعلق ہے اور دوسرا مخصوص ہے جو خطے کی صورت حال اور اس کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے اس کی اہمیت سے متعلق ہے۔
اول: ان تعلقات کی عمومی اہمیت کے حوالے سے یہ کہنا چاہیے کہ یہ تعلقات دو بڑے ملکوں کے درمیان ہیں جن کا علاقائی، آبادیاتی اور فوجی وزن بہت بڑا ہے اور خطے کے بڑے ممالک کا تعاون خطے کے دیگرممالک اور ان کے عوام کے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ یہ انہیں خطرات سے بچاتا ہے اور یہ تعمیری تعاون ہے جو ان ممالک کی سرحدوں سے تجاوز کرتا ہے اور بڑے مشترکہ منصوبوں کے ذریعے دوسرے ممالک کو بھی شامل کرتا ہے۔ ایسے منصوبے جو نوآبادیاتی منصوبوں کی جگہ لے سکتے ہیں جو علاقے کے لوگوں کا استحصال کرتے ہیں اور ان کے وسائل کو لوٹتے ہیں۔
دوم: اس کی خاص اہمیت اس بات میں ہے کہ مصر ان سب سے بڑے ممالک میں سے ایک ہے جس نے دشمن کو گھیرے میں لے رکھا ہے اور اسے غزہ اور اس کی مزاحمت کا مرکزی دروازہ سمجھا جاتا ہے اور صیہونیوں کے ساتھ اس کی جدوجہد کی تاریخ ان کی یادوں میں کندہ ہے، اس دوران ایران مزاحمت کا سب سے بڑا حامی بھی ہے اور مزاحمت کے محور کا سربراہ بھی ہے نیز صیہونی حکومت کے نسلی سلامتی کے مطالعاتی مراکز کے مطابق اسے اس حکومت کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔
ان دو مسائل کا ذکر کرتے ہوئے تجزیہ کار نے تاکید کی ہے کہ مصر اور ایران کے درمیان کسی بھی حد تک ہم آہنگی صیہونی حکومت کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہے۔ یہ ہم آہنگی کی نچلی سطحوں سے ایک ترقی پسند خواب ہے جو مزاحمت کی تنہائی اور محاصرے کو توڑنے اور ہم آہنگی کی اعلیٰ ترین سطحوں تک لے جانے کا باعث بنتی ہے جس کی مزاحمتی قوتیں خواہش رکھتی ہیں اور وہ مصر سے چاہیں گی کہ وہ مزاحمت کے آپشن پر واپس آجائے اور صیہونی دشمن کو تسلیم نہ کرے۔
قاہرہ کی تہران سے قربت کی وجوہات
قلمکار نے مزید کہا کہ تہران اور قاہرہ کے درمیان موجودہ قربت اور دونوں فریقوں کے درمیان تاریخی تعلقات میں توازن کی تبدیلی کی بنیاد دو چیزوں میں ہے:
1- مزاحمت کو برقرار رکھنا اور گریٹر اسرائیل پروجیکٹ نیز صیہونیوں کا خود کو ایک بھاری شخصیت کے طور پر مسلط کرنے کو بے اثر کرنا جس کے نتیجے میں ماحول پر سکون ہوا اور ایران کے ساتھ دشمنی کی فضولت بلکہ اس کی جگہ صہیونی دشمن کو لانے کے ساتھ ساتھ عرب نیٹو کی تشکیل اور مزاحمت کےمحوروں کو الگ تھلگ کی فضولیت کا احساس ہوا۔
2- بین الاقوامی تنازعہ اور ایسی صورتحال جہاں روس نے کثیر قطبی نظام کی تشکیل کے لیے ہتھیار اٹھا لیے ہیں جس کی وجہ سے امریکہ گھبرا گیا ہے اور اپنی ترجیحات کو تبدیل کر دیا ہے ،یہی وجہ ہے اس نے روسی کاروائی کو بے اثر کرنے کے لیے خود کو وقف کر دیا ہے جس کے نتیجہ میں خطہ میں اس کا اثر و رسوخ کم ہوا اورایک قسم کا خلا پیدا ہو گیا کیوں کہ خطے میں اس کے اتحادیوں نے امریکہ کی عدم موجودگی کی بنا پر اپنے کارڈ جمع کرنے اور اسٹریٹجک پوزیشن میں سرمایہ کاری کرنے کی کوشش کی۔
قاہرہ اور تہران کی قربت ریاض اور تہران کی قربت سے زیادہ اہم
تجزیہ کار کے مطابق جغرافیائی اور تاریخی طور پر دشمن کے ساتھ براہ راست تصادم کے محاذوں سے متعلق خصوصی اہمیت کی وجہ سے مصر اور ایران کے تعلقات سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کی بحالی سے بھی زیادہ اہم ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ ایران اور سعودی عرب کی قربت دشمن کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہے کیونکہ یہ مزاحمت کو تنہا کرنے کے منصوبے کو بے اثر کر دے گی اور عرب نیٹو کے اس منصوبے کو ناکام بنا دے گی جو دشمن نے تنازعات کو بگاڑنے اور فساد اور فتنہ پھیلانے کے لیے شروع کیا تھا، لیکن ایران اور مصر کے درمیان تعلقات کی واپسی دشمن کے لیے مزید مہلک دھچکا ہے۔