سچ خبریں: یوکرین کے خود ساختہ بحران کی وجہ ختم ہونے والی بائیڈن کی مقبولیت میں اس ملک کے غزہ کی دلدل میں دھنسنے سے مزید تیزی آئی ہے،ایسے بحران جنہوں سے نہ صرف امریکی صدر بلکہ ڈیموکریٹک اسپیکٹرم کو بھی 2024 کے انتخابات کے موقع پر متعدد چیلنجز سے دوچار کر دیا ہے۔
یوکرین کے بحران کے آغاز اور اس میں امریکہ کی شمولیت کو تقریباً ایک سال اور آٹھ ماہ گزر جانے کے باوجود اب بھی اس سے نکلنے کی کوئی امید نظر نہیں آتی،ایسی صورتحال میں وائٹ ہاؤس ایک اور بحران میں داخل ہو گیا ہے جو اس بار مقبوضہ فلسطین میں سامنے آیا ہے؛ ایک ایسا بحران جو روز بروز بڑھتا جا رہا ہے نیز خطے میں امریکہ کے مفادات کے لیے سنگین خطرہ بنتا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ جنگ کے بارے میں بائیڈن کا ایک اور جھوٹ
واضح رہے کہ ان دنوں مقبوضہ علاقوں کے سفر اور نیتن یاہو کے ساتھ بار بار فون کرنے سے لے کر ہتھیار بھیجنے اور خود کو صیہونی کہنے تک بائیڈن کے اقدامات اور موقف میڈیا کی سرخیوں میں ہیں۔
امریکہ کے صدر جنہوں نے اپنی نصف سیاسی زندگی میں ہمیشہ صیہونی حکومت کی حمایت کی ہے،اس حکومت کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے ساتھ اپنی حالیہ ملاقات میں انہیں یقین دلایا کہ وہ ان کی اور ان کی انتہاپسند کابینہ کی حمایت کرتے ہیں، بائیڈن کا کہنا تھا کہ میں نہیں مانتا کہ صیہونی ہونے کے لیے یہودی ہونا ضروری ہے،میں صیہونی ہوں۔
امریکہ کی تاریخ کے معمر ترین صدر کے اس عجیب و غریب موقف نے امریکہ کے اندر سے وائٹ ہاؤس کے خلاف تنقید کی لہر شروع کر دی یہاں تک کہ مشرق وسطیٰ کے مسائل پر سابق مذاکرات کار اور ڈیموکریٹک اور ریپبلکن حکومتوں کی وزارت خارجہ میں 6 سال تک کام کرنے والے آرون ڈیوڈ ملر نے کہا کہ بائیڈن کا اسرائیل کے ساتھ تعلق ان کے سیاسی ڈی این اے میں شامل ہے۔
چند دنوں میں بائیڈن کے دو بڑے جھوٹ
اسرائیل کے لیے بائیڈن کی زبانی اور مسلح حمایت کے ساتھ ساتھ اس عرصے کے دوران غزہ کے معاملے پر بائیڈن زبان سے جھوٹ اور الزامات بھی سننے کو ملے جن میں سے دو متنازعہ بن گئے۔
غزہ کے المعمدانی ہسپتال پر صیہونی حکومت کے وحشیانہ حملے کے بعد، جس میں ایک ہزار سے زائد فلسطینی خواتین اور بچے شہید ہوئے، ہم نے امریکی صدر کے ایک بڑے جھوٹ کا مشاہدہ کیا نیز اس سے قبل بائیڈن نے حماس کے مجاہدین کے ہاتھوں اسرائیلی بچوں کے سر قلم کرنے کی کہانی سنائی۔
صیہونی حکومت کے بچوں کے سر قلم کرنے کے بارے میں بائیڈن کے جھوٹ کے سلسلے میں، یہ کہہ سکتے ہیں کہ شروع میں صیہونی میڈیا نے دعوی کیا کہ حماس کے جنگجوؤں نے صیہونی بستیوں پر حملوں کے آغاز کے ساتھ ہی کم از کم 40 بچوں کا سر قلم کیا،یہ معاملہ وسیع پیمانہ پر پھیلایا گیا یہاں تک کہ امریکی صدر کے تبصرے تک جا پہنچا۔
اس سلسلے میں نیتن یاہو کے ترجمان ٹال ہینریچ نے دعویٰ کیا کہ غزہ سے 2 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع کفار شہر میں سر کٹے ہوئے اسرائیلی بچے ملے ہیں ،فوری طور پر صیہونی حامی میڈیا نے صہیونی فوج کے دعوے کی بنیاد پر کہا کہ حماس کی افواج نے ہفتے کی صبح ہونے والے حملے میں کئی اسرائیلی بچوں کے سر قلم کیے ہیں۔
وائٹ ہاؤس میں یہودی برادری کے رہنماؤں سے ملاقات میں بائیڈن نے اعتراف کیا کہ انہوں نے بچوں کے کٹے ہوئے سروں کی تصاویر دیکھی ہیں، انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے اتنی خوفناک اور تشدد کی تصاویر دیکھی ہیں جو عراق اور شام میں داعش کی طرف سے سامنے آنے والی تصاویر سے کہیں زیادہ خوفناک ہیں۔
بائیڈن کا وہم یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں ایسا کچھ دیکھوں گا،دہشت گردوں کے ہاتھوں بچوں کے سر قلم کیے جانے کی تصدیق شدہ تصاویرمیرے سامنے ہوں گی۔
یہودی رہنماؤں کے گروپ میں امریکی صدر بائیڈن کے عجیب و غریب بیان کو ابھی چند گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ وائٹ ہاؤس ایک بار پھر بائیڈن کے جھوٹ کی تردید کے لیے بیان جاری کرنے پر مجبور ہو گیا۔
واشنگٹن پوسٹ نے آخر کار وائٹ ہاؤس کے ترجمان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بائیڈن اور دیگر امریکی حکام نے اس بات کا ثبوت یا آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی کہ حماس نے اسرائیلی بچوں کے سر قلم کیے ہیں بلکہ جو کچھ انھوں نے کہا وہ بنیامین نیتن یاہو کے ترجمان اور صیہونی میڈیا رپورٹس کے مطابق تھا۔
صیہونی حکومت کے بڑے حملوں کو جواز فراہم کرنے کے لیے بچوں کے سر قلم کرنے کا جھوٹا دعوا کیا گیا، ان کا خیال تھا کہ اس جعلی کہانی سے وہ غزہ میں نسل کشی کی راہ ہموار کر رہے ہیں جس کے بعد انہوں نے غزہ پر راکٹ حملے کیے اور کئی ہزار بے گناہ شہریوں کی جان لے لی۔
بائیڈن کا دوسرا سب سے بڑا جھوٹ المعمدانی ہسپتال پر بمباری کے دوران میڈیا پر سامنے آیا،اس ہولناک واقعے کے بعد نیتن یاہو سے ملاقات کے لیے تل ابیب پہنچنے کے بعد بائیڈن نے غزہ کے المعمدانی اسپتال میں ہونے والے دھماکے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ایسا لگتا ہے کہ اسپتال پر بمباری دوسرے فریق کا کام تھا!، انہوں نے کہا کہ میں غزہ کے ہسپتال میں ہونے والے حادثے سے بہت افسردہ اور صدمے میں ہوں لیکن جو کچھ میں نے دیکھا اس کی بنیاد پر ایسا لگتا ہے کہ یہ حملہ دوسری طرف سے کیا گیا ہے۔
اسی دوران امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے اعلان کیا کہ غزہ میں المعمدانی اسپتال پر جس بم سے حملہ کیا گیا وہ امریکی ایم کے 84 بم تھا،مارک 84 بم (مارک 84)، امریکہ کا بنایا ہوا ایک کثیر المقاصد فری فال بم ہے، جس کا وزن تقریباً ایک ٹن ہے ، یہ بہت زیادہ تباہ کن طاقت رکھتا ہے۔
اس لیے اس حوالے سے شائع ہونے والی جعلی خبروں کا مجموعہ فلسطینی مزاحمتی قوتوں کے خلاف مغربی اور عبرانی میڈیا کی میڈیا وار کے عین مطابق اور ظالم و مظلوم کی جگہ بدلنے کے لیے کیا گیا۔
ان جھوٹوں کے دوسرے مقاصد میں سے ایک اسرائیل کو جنگی مجرم بننے سے بچانا ہے جبکہ غزہ میں گزشتہ دنوں کے واقعات واضح نسل کشی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو ظاہر کرتے ہیں جس کی بین الاقوامی قانون کے نقطہ نظر قابل مذمت ہیں۔
2024 کے انتخابات کے موقع پر بائیڈن کا جوا
جب سے نیتن یاہو میں اقتدار کے جنون نے لیکوڈ پارٹی کو دیگر انتہا پسند جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرنے کے لیے تیار کیا ان کی دہشتگرد کابینہ کے ارکان نے ہمیشہ متنازعہ اور پریشان کن اقدامات سے مقبوضہ علاقوں کے اندر متعدد بحران پیدا کیے ہیں، یہاں تک کہ اس بنیاد پرست کابینہ کو امریکہ اور یورپ نے بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
اب بائیڈن کی اسرائیل کے دائیں بازو کے رہنما کے ساتھ صف بندی نے ڈیموکریٹک پارٹی میں کچھ ترقی پسند قوتوں کو ایسے وقت میں خطرے میں ڈال دیا ہے جب ان کی 2024 کے صدارتی انتخابات میں دوبارہ حصہ لینے کی کوشش ہورہی ہے،مختلف ممالک میں بڑھتا ہوا بین الاقوامی غصہ اور ان کے احتجاجی نعرے اس حقیقت کو عیاں کرتے ہیں کہ دنیا کے لوگ انسانی حقوق کی اس تباہی کا ذمہ دار امریکہ کو ٹھہراتے ہیں۔
مزید پڑھیں: بائیڈن کا مظلوم فلسطینی بچوں کے خون سے سیاسی تجارت
جس طرح امریکی کانگریس میں واحد فلسطینی امریکی نمائندے راشدہ طلیب نے بائیڈن سے کہا کہ اس معاملے پر تمام امریکی آپ کے ساتھ نہیں ہیں،آپ کو بیدار ہونے اور اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے،ہم نسل کشی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
بائیڈن کی مقبولیت میں کمی اور غزہ کے بحران کے آئندہ امریکی انتخابات پر اثرات کی ایک اور مثال امریکی عرب اور مشی گن کی مسلم آبادی کے بیان میں دیکھی جا سکتی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ فلسطین کے خلاف صیہونی حکومت کی حمایت کر کے بائیڈن نے ان کے ساتھ دھوکہ کیا ہے لہذا وہ اب آئندہ سال ہونے والے صدارتی انتخابات میں ان کی حمایت نہیں کریں گے۔
مشی گن ریاستہائے متحدہ میں مسلمانوں اور عرب امریکیوں کی سب سے بڑی آبادی میں سے ایک ہے،کہا جاتا ہے کہ بائیڈن کے لیے اس کے باشندوں کی حمایت نے ان کے 2020 کے انتخابی حریف کے مقابلے میں ان کے ووٹوں کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا، تاہم اب اس ملک کے مسلمان اور عرب جو بائیڈن سے مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں اور انہیں دوبارہ ووٹ نہ دینے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
اگرچہ مسلمان امریکی آبادی کا ایک چھوٹی سی اقلیت (1.3 فیصد) ہیں، لیکن ان کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے اور دونوں جماعتیں ان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے تیزی سے مقابلہ کر رہی ہیں، مذکورہ بحران سے پہلے ڈیموکریٹس اس میدان میں زیادہ کامیاب تھے کیونکہ مسلمانوں کے اس ملک میں سفر پر پابندی لگانے کی ٹرمپ کی پالیسیوں نے ریپبلکن اور مسلمانوں کے درمیان خلیج پیدا کر دی تھی۔
فی الحال، فلسطینی مزاحمت اور صیہونی حکومت کے درمیان تنازعات کے آغاز کے ساتھ ہی، بائیڈن کی جان بسے کھلے عام صیہونیوں کی وجہ سے انہوں نے مشی گن میں عرب امریکی اور مسلم امریکی ووٹروں کے تقریباً تمام ووٹ کھو دیے ہیں جبکہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ مشی گن، مینیسوٹا، جارجیا اور ایریزونا سمیت اہم ریاستوں میں ان کے ووٹ بہت اہم ہیں اور ڈیموکریٹس کے خلاف 2024 کے امریکی انتخابات کو متاثر کر سکتے ہیں۔