سچ خبریں:اس وقت امریکی سیاسی رہنماؤں کو ایسے خوف کا سامنا ہے کہ وہ آزاد میڈیا کو اپنے لوگوں کے لیے خطرناک سمجھتے ہیں، لیکن سب سے بنیادی سوال جو پوچھا جانا چاہیے وہ یہ ہے کہ کیا امریکی جمہوریت ابھی تک زندہ ہے؟
گلوبل ٹائمز کے مطابقشین پینگ نے "امریکہ کا سوشل میڈیا، یا سچائی کی وزارت؟” کے عنوان سے ایک تجزیہ میں امریکہ میں سوشل میڈیا کی آزادی کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ ٹویٹر کے مالک بننے کے بعد ایلون مسک نے ایک ٹویٹ کیا کہ پرندہ آزاد ہو گیا ہے،اس ٹویٹ نے شاید کچھ صارفین کو خوش کیا ہو لیکن یہ خوشی خود فریبی کے بلبلے سے زیادہ کچھ نہیں۔
مسک کے ٹویٹر پر قبضہ کرنے کے بعد سے بڑے پیمانے پر آن لائن تبصروں اور ٹویٹر اور میٹا جیسے پلیٹ فارمز کی چوکس نظروں سے امریکی حکام نے کبھی آنکھ اھر ادھر نہیں کی،ابتدائی طور پر امریکی حکام کو ان پیغامات پر تشویش تھی جن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ امریکی انتخابات کی سالمیت کے لیے نقصان دہ ہیں، 2020 کے انتخابات سے پہلے امریکی ٹیکنیکل ادارون کے سربراہان ہر مہینے FBI، محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی اور دیگر سرکاری اداروں کے نمائندوں سے ملاقات کرتے تھے تاکہ انتخابات کے دوران غلط معلومات کو ہینڈل کیا جا سکے، تاہم اب یہ انکشاف ہوا ہے کہ ایف بی آئی کے ایجنٹ خفیہ طور پر سوشل میڈیا چیٹ رومز، آن لائن فورمز اور بلاگز میں دراندازی کرتے ہیں تاکہ افراد کی شناخت ہوسکے اور ان کے ذاتی پیجز میں لاگ ان ہو کر تنظیم کو درہم برہم کر سکیں۔
درحقیقت یہ ایک پھسلن والی ڈھلوان ہے، انتخابی معاملے کے بعد امریکہ میں ہوم لینڈ سکیورٹی کے محکمے نے جلد ہی اپنی توجہ دیگر شعبوں کی طرف مبذول کرائی جیسے کووِیڈ-19 کی وبا کی شروعات، ویکسین کی افادیت، نسلی انصاف، افغانستان سے امریکی انخلاء اور یوکرین کے لیے امریکی حمایت کی نوعیت جیسا کہ حال ہی میں لیک ہونے والی دستاویزات میں دکھایا گیا ہے، یہ تمام دستاویزات کسی نہ کسی طریقے سے امریکی حکمرانی کی ناکامیوں کی طرف اشارہ کرتی نظر آتی ہیں کہ امریکہ کوویڈ 19 سے ہونے والی اموات میں سب سے آگے ہے دوسری طرف افریقی نژاد امریکیوں کو پولیس کی بربریت کے ساتھ غیر متناسب زندگی گزارنی پڑرہی ہے، افغانستان میں 20 سالہ امریکی جنگ کے نتیجے میں لاکھوں افغان اپنی جانیں گنوا چکے ہیں اور بہت سے امریکی بیٹے اور بیٹیاں فوجی وردی میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
دریں اثنا عام امریکی آمدنی، ملازمتیں، ہیلتھ انشورنس، اور اپنی زندگیوں پر کنٹرول کا احساس کھو رہے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے ان کے منتخب اہلکار یورپ میں دور دراز کی جنگ میں غیر ملکی فوجیوں کو مسلح کرنے میں اربوں ڈالر ضائع کر رہے ہیں جب کہ کچھ معلومات کو سنسر کیا جاتا ہے یا اس سلسلہ میں غلط معلومات کو لوگوں کو بتایا جاتا ہے،اسٹینفورڈ انٹرنیٹ آبزرویٹری اور گرافیکا کے محققین کا کہنا ہے کہ بہت سے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ایسے مواد کو مسلسل فروغ دیتے ہیں جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کے مطابق نیز روس، چین اور ایران سمیت دیگر ممالک کے خلاف ہوتا ہے۔
حال ہی میں، امریکی کانگریس نے غیر ملکی سامعین کے لیے چین کے خلاف مواد تیار کرنے کے لیے 500 ملین ڈالر مختص کیے ہیں،ان اعمال کا جواز پیش کرنے کے لیے؛ قومی سلامتی پر اکثر بات کی جاتی ہے، سوال یہ ہے کہ آزادی اظہار رائے کی سنسر شپ اور معلومات کے سلسلہ میں دوہرا معیار امریکی قومی سلامتی میں کس طرح معاون ہے؟یہ کہنا ضروری ہے کہ انٹرنیٹ کی نگرانی اب امریکی حکام کے لیے ایک اہم معاملہ ہے۔
اپریل میں بائیڈن انتظامیہ نے محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کے معلومات کی نگرانی کرنے والے ادارے کی بنیاد ڈالی تاہم اسے چار ماہ بعد غیر واضح مینڈیٹ اور انتظامی اوور ٹائم کی وجہ سے منسوخ کر دیا گیا تھا لیکن ریاستہائے متحدہ کی حکومت کے پاس نجی شعبے میں کوڈرز کا ایک لشکر ہے جسے وہ اپنے مقاصد کے استعمال کرتی ہے، بتایا گیا ہے کہ فیس بک نے حکومتی اہلکاروں کے لیے ایک خصوصی پورٹل بنایا ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر صارف کے اکاؤنٹ کے مواد کو بے اثر یا تباہ کیا جا سکے اسی طرح ایسے دوسرے پلیٹ فارمز بھی ہیں جو غلط معلومات کو روکنے کی حکومتی کوششوں کی حمایت کرنے کے لیے اپنے الگورتھم کو ایڈجسٹ کرتے ہیں۔
سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے مطابق، امریکہ نے ایک بار فخر سے اعلان کیا تھا کہ معلوماتی نیٹ ورک لوگوں کو نئے حقائق دریافت کرنے اور حکومتوں کو زیادہ جوابدہ بنانے میں مدد کرتے ہیں، تاہم اب امریکہ کے سیاسی رہنما اس قدر خوفزدہ ہیں کہ وہ خود امریکہ کے بارے میں یا دوسرے ممالک کے بارے میں آزادانہ طور پر بات کرنے یا سچ بولنے کو اپنے ہی لوگوں کے لیے خطرناک سمجھتے ہیں۔ امریکی عوام کو اپنی آزادیوں کے جوابات کی ضرورت ہے،لیکن سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا امریکی جمہوریت اب بھی زندہ ہے؟