سچ خبریں: بائیڈن امریکی صدارتی انتخابات کے لیے انتہائی نازک حالت میں ہیں لہذا وہ اپنی خارجہ پالیسی میں ایک بڑی کامیابی کی تلاش میں ہیں اور سعودی عرب اس موقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔
ریاض اور واشنگٹن کے درمیان روایتی اور تزویراتی اتحاد متعدد چیلنجوں اور اتار چڑھاؤ کے باوجود اب تک برقرار ہے،یہ اتحاد جو اوباما کے دورِ صدارت کے دوسرے دور میں مشرق کی طرف دیکھنے کی پالیسی اور مغربی ایشیائی خطے میں امریکی مداخلت میں کمی جیسے عوامل کے زیرِاثر متزلزل ہوا تھا، ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے ساتھ دوبارہ مضبوط ہوا لیکن کچھ عرصے بعد سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان اختلاف رائے کے بعد تیل کی پیداوار کی مقدار میں کمی کی وجہ سے ایک بار پھر اس اتحاد میں درار آگئی جس کے بعد امریکی افواج کی موجودگی میں کمی اور بائیڈن کی نئی حکمت عملی کی بنیاد پر سعودی عرب سے پیٹریاٹ میزائل سسٹم کو ہٹانا بھی سعودیوں کے عدم اطمینان کا باعث بنا۔
یہ بھی پڑھیں: امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان مشترکہ فوجی مشقوں کا آغاز
یاد رہے کہ واشنگٹن اور ریاض کے درمیان اختلافات میں اضافہ اور 80 سالہ اتحاد کا ٹوٹنا، خاص طور پر مشرق پر توجہ مرکوز کرنے کی پالیسی اور افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد واشنگٹن۔ریاض کے خارجہ تعلقات کے حوالے سے سعودی حکام کے رویے میں تبدیلی آئی،اسی وجہ سے سعودی حکام نے امریکہ کے ساتھ یکطرفہ تعلقات کی پالیسی سے ہٹ کر روس اور چین جیسے اس کے حریف ممالک کے ساتھ کثیر قطبی تعلقات کی طرف رخ کیا ہے، چین کے سعودی عرب کے ساتھ اقتصادی معاہدوں پر دستخط کے ساتھ ساتھ سکی ورٹی تعاون کی ترقی نے واشنگٹن کو اس نتیجے پر پہنچایا ہے کہ اسے اپنی روایتی بنیاد کو برقرار رکھنا چاہیے۔ اس کے علاوہ روس نے گزشتہ دو سالوں میں خاص طور پر یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد سے سعودی عرب کے ساتھ اپنے اقتصادی اور سکیورٹی تعاون کو مضبوط کیا ہے۔
دریں اثنا خلیج فارس میں چین اور روس کے درمیان اتحاد کو مغرب کے مفادات کے لیے سنگین خطرہ تصور کیا جاتا ہے،اس سے واشنگٹن میں تشویش پائی جاتی ہے اسی لیے گزشتہ ایک سال کے دوران بائیڈن حکومت نے ریاض کے ساتھ تعلقات میں پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس کی خلیج فارس کے علاقے میں اب بھی مضبوط موجودگی ہے۔ حالیہ دنوں میں واشنگٹن اور منامہ کے درمیان ہونے والے سکیورٹی معاہدے پر دستخط کا اس حوالے سے تجزیہ اور جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
بہت سے ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ بحرین کے ساتھ اسٹریٹجک معاہدے کو سعودی عرب سمیت خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ اسی طرح کے معاہدوں کے فریم ورک کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے،درحقیقت منامہ کے ساتھ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کرکے واشنگٹن یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ اس کا خلیج فارس کے علاقے سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور یہ سعودیوں اور دیگر عرب ممالک کے لیے ایک قسم کا اشارہ ہے کہ یوکرین کے تنازع کے باوجود واشنگٹن اب بھی عرب اتحادی ممالک کا دفاع کرسکتا ہے۔
دریں اثنا سعودی عرب کی ریاستہائے متحدہ امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدے پر دستخط کرنے کی وسیع خواہش کے باوجود، ریاض بحرین معاہدے کی مثال سے زیادہ ضمانتوں کے ساتھ ایک رسمی معاہدہ چاہتا ہے، اگرچہ بحرین خلیج فارس میں امریکہ کا اہم اتحادی ہے اور امریکی بحریہ کا پانچواں بحری بیڑا بحرین میں ہے لیکن حالیہ سکیورٹی معاہدہ نیٹو معاہدے کی شق V کی ضمانت فراہم نہیں کرتا، جس میں کہا گیا ہے کہ کسی ایک رکن پر حملہ اتحاد کے تمام ارکان پر حملہ ہے، درحقیقت، حالیہ سیکورٹی معاہدے کا مطلب بحرین پر حملہ امریکہ پر حملہ نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب ہے خطرات کو روکنا اور بحرین پر حملے کی صورت میں واشنگٹن فوری طور پر اپنے اتحادی سے مشورہ کرنے اور جواب دینے کے طریقوں کا جائزہ لینے کا پابند ہے لیکن سعودی عرب اس قسم کا سکیورٹی معاہدہ نہیں چاہتا کیونکہ سعودی عرب امریکہ سے نیٹو معاہدے جیسی اعلیٰ سطح پر رسمی نوعیت کی حفاظتی ضمانتیں تلاش کر رہا ہے۔
درحقیقت سعودی عرب امریکہ کے ساتھ ایسا معاہدہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے جیسا کہ امریکہ نے سرد جنگ کے دوران جاپان اور جنوبی کوریا کے ساتھ کیا تھا۔،اس حوالے سے نیویارک ٹائمز نے گزشتہ ہفتے لکھا تھا کہ امریکہ سعودی عرب کے ساتھ مشترکہ دفاعی معاہدے کی شرائط پر بات چیت کر رہا ہے جیسا کہ جاپان اور جنوبی کوریا کے ساتھ اس کے فوجی معاہدوں کی طرح ہے۔
اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ جو بائیڈن آئندہ امریکی صدارتی انتخابات کے لیے ایک نازک حالت میں ہیں اور خارجہ پالیسی میں ایک بڑی کامیابی کا اعلان کرنے کے خواہاں ہیں جبکہ سعودی عرب بھی اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اور ایک معاہدے کے بدلے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا چاہتا ہے،تاہم بائیڈن انتظامیہ کے لیے امریکہ کے ساتھ مضبوط دفاع پر مبنی سعودی عرب کی طرف سے درخواست کردہ معاہدے کی کانگریس سے منظوری ضروری ہےکیونکہ یہ امریکہ کے کندھوں پر وسیع ذمہ داریاں ڈالتا ہے۔
بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امکان ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ اس طرح کے معاہدے کو کانگریس میں ووٹ نہ مل سکے جبکہ اس کے لیے دو تہائی سینیٹرز کی منظوری درکار ہے، اس کے علاوہ، اس کی منظوری قابل اعتراض اور احتجاج کا باعث بن سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کہاں تک جانے والی ہے؟
یاد رہے کہ روس اور چین کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات کی ترقی کی وجہ سے ریاض پر کثرت سے تنقید کی جاتی ہے۔ ساتھ ہی، امکان ہے کہ کانگریس میں ریپبلکن جو بائیڈن کی حکومت کو امریکی صدارتی انتخابات سے قبل ایسی کامیابی حاصل کرنے سے روکنا چاہتے ہیں،اس نکتے کے آخر میں یہ بتانا ضروری ہے کہ ریاض-واشنگٹن اسٹریٹجک اتحاد کا بنیادی مرکز 1945 کا تیل سکیورٹی معاہدہ تھا جو وقت کے ساتھ ساتھ امریکہ کے لیے اپنی اہمیت کھو چکا ہے خاص طور پر جب سے امریکہ نے شیل آئل کی پیداوار میں 60 فیصد اضافہ کیا اور 2008-2019 میں خلیج فارس کے تیل کی درآمد میں 62 فیصد کمی کی۔ تاہم، امریکہ کی جانب سے سعودی عرب کے ساتھ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے کے اقدامات، جس کا مقصد ریاض کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے، چین اور روس کے ساتھ مسابقت اور انتخابی استحصال کو قبول کرنے پر آمادہ کرنا ہے، سکیورٹی کے اسرار کو مزید گہرا کر سکتا ہے، جبکہ بداعتمادی، شکوک اور تناؤ کی فضا، ہتھیاروں کی دوڑ کو ہوا دینے اور خطے میں کشیدگی کو بڑھانے کا باعث بنتی ہے۔ اس کے علاوہ، خطے کے ممالک جیسے متحدہ عرب امارات، قطر اور کویت کے درمیان اس معاہدے کے لیے اسی طرح کی درخواستوں کا اٹھانا بھی خطے میں نسبتاً استحکام اور حالیہ کشیدگی میں کمی کے عمل میں شدید رکاوٹ ڈال سکتا ہے۔