سچ خبریں: 7 اکتوبر کے آپریشن میں فلسطینیوں کی طرف سے اسرائیل کو ایک مادی اور روحانی دھچکا لگا تھا اور اب ان کے پاگلانہ اقدامات کو دیکھتے ہوئے براہ راست محاذ آرائی کے بغیر اور سیاسی، سماجی اور سکیورٹی کے نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے دوسرے کارڈز کو انتہائی حساب کتاب سے استعمال کیا جانا چاہیے،ایران کے لیے اسے مزید معلومات اور تحفظ کے کاموں کو ایجنڈے میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔
شام میں دمشق کے علاقے المزہ پر اسرائیل کے حالیہ حملے، جس کے دوران پاسداران انقلاب اسلامی کے پانچ مشیر شہید ہوئے، کا مختلف جہتوں سے تجزیہ کیا جاسکتا ہے، یہ حملہ یہ پیغام دیتا ہے کہ تنازعات کے انتظام کے طریقوں کی پیمائش کی جانی چاہیے اور اسرائیل اور اس کے حامیوں کی فیلڈ میں نہیں کھیلنا چاہیے، سب سے پہلے اس بات پر توجہ دینا ضروری ہے کہ 7 اکتوبر کو اسرائیل کے خلاف حماس کی کارروائی اس نقطہ نظر سے کہ اس نے اسرائیل کی سلامتی کی بالادستی کو توڑا اور ناقابل تسخیر کہے جانے والے معلوماتی حفاظتی ڈھانچے کو نیست و نابود کر دیا ، وہ ڈھانچہ جس پر اسرائیلی فخر کرتے تھے اور اسے خطے کی سطح پر اور خطے سے باہر دوسرے اداکاروں کے مقابلے میں اپنا طرہ امیتاز سمجھتے تھے لیکن حماس نے اسے مٹی میں ملا دیا، یہ بہت قابل غور اور توجہ کے لائق ہے اور یہ ظاہر سی بات ہے کہ صیہونی حکومت کو اس کی تلافی کے لیے کوئی بھی اقدام اٹھانا تھا کیونکہ اسرائیل میں حماس کی کاروائیوں نے اس اداکار کی خود ساختہ تصویر کو ایک مختلف انداز میں بے نقاب کیا۔
یہ بھی پڑھیں: الاقصی طوفان آپریشن کو انجام دینے کی وجہ؛ حماس کا بیان
اسی وجہ سے، حماس کے 7 اکتوبر کے حملے کے بعد کے دنوں میں، مغربی ممالک کے رہنماؤں نے غیر محفوظ اسرائیلی معاشرے کے خاتمے اور صیہونیوں کی سلامتی کے لیے خطرناک ریورس امیگریشن کے نفاذ میں اس آپریشن کے ڈومینو اثرات کو روکنے کے لیے مقبوضہ علاقوں کا سفر کیا اور اس حکومت کی حمایت کا اعلان کیا ہے،اس وجہ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسی صدمے کی وجہ سے اسرائیل نے اپنے ایجنڈے پر کاروائیاں کیں اور پہلے قدم میں غزہ کے عوام کا بڑے پیمانے پر قتل عام اور ان کی جبری ہجرت کا آغاز کیا جس سے مادی اور روحانی نقصانات کے باوجود مغربی لیڈروں کی خاموشی کا کوئی زیادہ نتیجہ نہیں نکلا اور وہ اپنے مقاصد میں سے کوئی حاصل نہیں کرسکی ہے،ایک خونی منصوبہ جو غزہ میں نافذ کیا گیا۔
اسرائیل نے 7 اکتوبر کے حملے کے صدمے سے سنبھل کر اپنے آپ پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے کچھ ہی دیر بعد، عالمی رائے عامہ میں اپنے اور اپنے مغربی حامیوں کی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے اور مغربی کنارے سے لے کر شام اور لبنان میں ٹارگٹ کلنگ کی حکمت عملی اپنائی،جب اسرائیلی حکومت اس طرح کی حکمت عملی کا سہارا لیتی ہے تو وہ دراصل ایران کو مشتعل کرنے کے درپے ہوتی ہے اور تہران کے رد عمل کو بھڑکا کر اسرائیل فلسطین تنازع کو تہران اور تل ابیب اور امریکہ جیسے اس کے حامیوں کے درمیان تنازعہ میں تبدیل کرنے کی راہ ہموار کرتی ہے۔
اسرائیلیوں نے جس حکمت عملی کا سہارہ لیا ہے، اس کے مطابق ایران کو ان پیغامات کو مدنظر رکھنا چاہیے اور اپنے اشارے، سینسرز اور حکمت عملیوں کو اس طرح بیان کرنا چاہیے کہ وہ اسرائیل کے بنائے ہوئے جال میں نہ پھنسے۔ ٹارگٹ کلنگ حکمت عملی، جو عرب اور ایرانی کمانڈروں کے قتل کی صورت میں انجام دی گئی ہے، خواہ لبنان ہو یا شام، اور جس کے دوران حزب اللہ اور قدس فورس کی اہم شخصیات کو نشانہ بنایا گیا ہے، درحقیقت اسرائیل کے لیے اس کا کوئی تزویراتی فائدہ نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد اختلاف پیدا کرنے اور مزاحمتی تحریک کے حوصلے پست کرنا نیز فلسفین کی معنوی اور لاجسٹک مدد کے عمل کو تباہ کرنا اور مشاورتی عمل میں خلل ڈالنا ہے،
اگلے مرحلے میں اس حکمت عملی سے سب سے زیادہ توقع یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح ایران براہِ راست تصادم کے میدان میں اترے گا… تاکہ اگر وسیع تر صورت حال تصادم کی صورت اختیار کر جائے تو اسرائیل اور نیتن یاہو پر سیاسی دباؤ ختم ہو جائے۔
اسرائیل کی حالیہ کارروائیوں میں علاقائی اور غیر علاقائی اداکاروں کے لیے پیغامات :
1۔ پہلا پیغام شام کے لیے ہے کیونکہ اسرائیل نے اپنے حالیہ حملوں سے بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کے برعکس شام کی علاقائی خودمختاری کی واضح خلاف ورزی کی ہے، اس تناظر میں شام پر زیادہ توجہ دینے اور اس کا فضائی دفاع کس طرح کام کرتا ہے نیز حفاظتی امور کو تیز کرنے اور معلومات کے تحفظ کی صورت حال اور اسرائیلی جاسوسوں کے اس ملک میں سرگرم نہ ہونے کی تحقیقات کرنے کی ضرورت پر زیادہ توجہ دی جانی چاہیے۔
اسرائیل کی زیادہ درست معلومات تک رسائی سانپ کے سر پر مارنے کی حکمت عملی کے مطابق اپنے انٹیلی جنس اقدامات کو تیز کرنے کا نتیجہ ہو سکتی ہے، اسے شام کی اندرونی قوتوں کی مدد سے فائدہ پہنچ سکتا ہے نیز عرب اور پڑوسی ممالک کی مدد سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، مغربی اور خاص طور پر برطانوی انٹیلی جنس سرگرمیوں اور امریکہ کی مدد بھی لے سکتا ہے۔ ان سب کو مستقبل کے خطرناک نتائج پر غور کرنا چاہیے اور شامی حکومت کو اس میدان میں زیادہ کردار ادا کرنا چاہیے اور ذمہ داری سے کام لینا چاہیے۔
2۔ ان حملوں کا دوسرا پیغام روس اور چین کے لیے ہے، وہ دو اداکار جو بظاہر بین الاقوامی فورمز پر اپنی تمام تر سفارتی طاقت اور طاقت کے توازن کو امریکہ کے ساتھ کشیدگی کو بڑھنے سے روکنے کے لیے استعمال نہیں کرتے،چین جو صرف ملکی معیشت اور اس کے مسائل سے چمٹا ہوا ہے،کی بے عملی ، اور روس، جو غیر فعال ہے جبکہ اس صورت حال میں دونوں کے مفادات ہیں، لیکن مستقبل کے خطرات پر توجہ دینا ضروری ہے۔
3۔ تیسرا پیغام یورپ اور امریکہ کے لیے ہے،اس سے ہٹ کر کہ ایران اسرائیل کے حالیہ حملوں کا جواب دے گا یا نہیں؟ یا تہران جو حکمت عملی اپناتا ہے وہ خطے میں سلامتی کے پہلے حلقے کے لیے ایک پیغام ہے، جو کہ یورپ ہے نہ امریکہ،کشیدگی میں اضافے کے خلاف امریکہ کی ایک اور ذمہ داری ہے جو اسرائیل اور نیتن یاہو کی مکمل حمایت کرتا ہے، دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ یورپ نہ صرف تناؤ میں اضافے کا ذمہ دار ہے بلکہ اسے مشرق وسطیٰ میں سلامتی کا پہلا حلقہ سمجھا جاتا ہے اور اس کا معاشرہ اس خطے میں ہونے والی عدم تحفظ کی صورتحال سے متاثر ہے،اس لیے بحران کا بڑھنا سبز براعظم کے رکن ممالک کے مفادات کے مطابق نہیں ہے۔
اس لیے یورپ کو فوری رد عمل کا اظہار کرنا چاہیے کیونکہ اگر اس طرح کی کارروائی ایران کی حکمت عملی میں تبدیلی کا سبب بنتی ہے اور تہران اسی طرح کی کارروائی شروع کرنا چاہتا ہے تو اگر جوابی اقدامات سست ہوں گے تو یورپ کی سلامتی بالواسطہ اور منفی طور پر متاثر ہوگی۔ لہٰذا، یورپ کو ذمہ داری سے کام کرنا چاہیے، جو کہ کشیدگی کو بڑھنے سے روکنے کے لیے ضروری ہے، تاکہ کشیدگی کی سطح محدود رہے پھیل نہ جائے تاکہ اسرائیل اور فلسطین اپنے چیلنجوں کو حل کرنے کا راستہ تلاش کر سکیں۔
بدقسمتی سے یورپ اور دیگر مغربی ممالک بالخصوص امریکہ کی حکومتیں جنہوں نے اسرائیل کو بلینک چیک دیا ہے، دمشق پر اس کے غیرذمہ دارانہ حملوں اور شام میں دوسرے ممالک کے شہریوں کو ڈھٹائی سے نشانہ بنانے کی اسرائیل کو سزا دینے کی ہمت نہیں رکھتے، جو شام کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی سنگین خلاف ورزی ہے نیز خطے اور دنیا کو اس طرح افراتفری میں ڈالنے کی اجازت نہ دیں، اگر وہ صرف ایران کے خلاف اسرائیل کی اشتعال انگیز کارروائیوں کا تماشا دیکتھے ہیں اور صرف خاموش رہنا چاہتے ہیں نیز خطے میں تباہ کن جنگ شروع ہونے تک دیکھتے رہتے ہیں تو انہیں مستقبل کے نتائج بھگتنا ہوں گے اس لیے کہ اس طرح کی جارحیت کے سنگین علاقائی اور بین الاقوامی اثرات ہیں۔ اس لیے عالمی سطح پر مبصرین کو چاہیے کہ وہ خطے میں تباہ کن عمل کی سمت بڑھنے والے اسرائیل کے اقدامات کو مدنظر رکھیں۔
4۔ اور آخری پیغام ایران کے لیے ہے، اور یہ کہنا ضروری ہے کہ ایران منصوبہ بند قتل کی حکمت عملی پر کمانڈروں کے قتل کی صورت میں چاہے اس میں حزب اللہ یا پاسداران انقلاب کے قائدین اور کمانڈروں ہوں،پر ردعمل ظاہر کر رہا ہے جس میں کئی تجاویز شامل ہونی چاہئیں۔
اول: اول یہ کہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال تیزی سے کشیدہ ہوتی جا رہی ہے جس کا مقابلہ کرنے کے لیے سکون کی ضرورت ہے اور اس لیے ایران کو چاہیے کہ وہ تحمل کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہو اور کسی ممکنہ تصادم میں نہ پڑے، کیونکہ اس طرح کی کارروائیاں دشمن کی زمین میں کھیلنا ہوگا۔
دوم: دوسرا، ایران کو اس زمرے پر غور کرنا چاہیے کہ اسے میڈیا کے دباؤ اور اندر اور باہر سے مختلف مقاصد رکھنے والے متعصب لوگوں سے متاثر نہیں ہونا چاہیے،وہ لوگ جن کا ہدف ایران کو تنازعات میں گھسیٹنا ہے،تہران کو اپنے طویل المدتی مفادات پر غور کرنا چاہیے ، ایران کو بہت جلد پرسکون ہونے اور سفارتی نقطہ نظر کو جگہ دینے کی حکمت عملی کو سامنے رکھنا چاہیے اور عالمی سطح پر قانونی اقدامات پر غور کرنا چاہیے،اس تناظر میں، ایسے اقدامات کے لیے مدد اور اتفاق رائے پیدا کرنا جو اسرائیل اور فلسطین سے باہر کشیدگی کو پھیلنے سے روک سکتے ہیں اور اس کے وسیع پیمانے پر داخلے کو مدنظر رکھنا چاہیے، اور اس کے علاوہ مختلف سطحوں پر مشاورت سے ایران کو اس سے بچنے میں مدد ملے گی۔
اسرائیل کی مہم جوئی کے نتائج نے علاقائی اداکاروں اور عالمی اداروں کے ساتھ اسرائیل کی پالیسیوں کے خطرات کو واضح کرنے کے لیے راہ ہموار کی ہے اس لیے تہران کو سلامتی کے مسائل اور امریکہ کی حمایت سے اسرائیل کی جاسوسی تک رسائی پر غور کرنے کے علاوہ سفارت کاری کو ترجیح دینی چاہیے، خطے کو تباہ کن جنگ میں گھسیٹنے کے خلاف عالمی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے دور اندیشی والی حکمت عملی اور مضبوط ایرانی سفارت کاری کی عدم موجودگی میں اگر خطے کے حالات نے دنیا کو نیتن یاہو سے جوڑ دیا تو مغرب ایک بھیانک غلطی کرے گا۔
اسرائیل کے اقدامات سرحد پار دہشت گردی کی توسیع کی ایک قسم ہیں اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے بین الاقوامی تعاون اور اتفاق رائے کی ضرورت ہے اور ایران کے پاس تزویراتی صبر اور تدبر کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے اور اس میں جلد بازی نہیں ہونی چاہیے۔ چونکہ اسرائیل ایک مشکل ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی صورتحال سے دوچار ہے اور اس صورتحال سے نکلنے کا واحد راستہ کشیدگی اور تنازعات کی سطح کو بڑھانا ہے، یہ نیتن یاہو کے ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی مسائل کے علاوہ ہے، یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انھوں نے اس میدان میں مکمل فتح کے ساتھ اپنی تقدیر کا تعین کیا ہے۔ اور دوسری طرف، یہ درست ہے کہ انٹیلی جنس اور فوجی جنگ میں جانی نقصان ناگزیر ہے، لیکن کسی کو سخت انتقام اور یکساں ردعمل کی حکمت عملی پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔
مزید پڑھیں: تل ابیب غزہ میں ایک ناقابل شکست فتح کی تلاش میں
7 اکتوبر کے آپریشن میں فلسطینیوں کی طرف سے اسرائیل کو ایک مادی اور روحانی دھچکا لگا تھا اور اب ان کے پاگلانہ اقدامات کو دیکھتے ہوئے، دوسرے کارڈز کو براہ راست محاذ آرائی کے بغیر انتہائی حساب کتاب کے ساتھ استعمال کیا جانا چاہیے اور سیاسی، سماجی اور سلامتی کے نتائج پر غور کرنا چاہیے، ایران کے لیے اسے مزید معلومات اور تحفظ کے کاموں کو ایجنڈے میں شامل کرنے کی ضرورت ہے، ان شاء اللہ!