سچ خبریں:ترکی کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کا خیال ہے کہ ترک صدر کے ساتھ مغربی میڈیا کی دشمنی ایک منصوبہ سیاسی منصوبہ ہے لیکن اردگان کے مخالفین کا نقطہ نظر مختلف ہے۔
جیسے جیسے ترکی میں انتخابات کی تاریخ قریب آتی جارہی ہے، خطے اور دنیا کے بہت سے ذرائع ابلاغ میں ترکی کے سیاسی ماحول کے بارے میں تجزیے ہورہے ہیں جن میں سے اکثر انقرہ اور اردگان کی ٹیم کو پسند نہیں آتے۔ کیونکہ ان تجزیوں میں بنیادی طور پر ایسے مسائل کا تذکرہ کیا گیا ہے جو ترکی کے مشکل معاشی حالات کے بارے میں مغربیوں کے علم کی نشاندہی کرتے ہیں جو انہیں حکومت کی ناکارہ پالیسیوں سے منسوب کرتے ہیں۔
جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کا خیال ہے کہ ترک صدر کے ساتھ مغربی میڈیا کی دشمنی ایک منصوبہ بند سیاسی منصوبہ ہے، لیکن اردگان کے مخالفین کا نقطہ نظر اس سے مختلف ہے،اس جماعت کے مشیروں اور تھنک ٹینکس کے نقطہ نظر سے اردگان کی کرشماتی حیثیت سے امریکی اور یورپی ممالک کے سربراہان کو حسد ہے ، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ان کی شخصیت پر شب خون مارنے کے لیے بے تحاشا مال و زر خرچ کیا ہے ! اس خیال کو فروغ دینے کے لیے جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی بہت سے تھنک ٹینکس ، میڈیا اور پروپیگنڈا اداروں میں کئی زبانوں میں تشہیر کر رہی ہے۔
ترک حکومت کے قریبی سکیورٹی تجزیہ کاروں میں سے ایک ظفر مشہ نے اردگان کے بارے میں مغربی میڈیا کے رویے کے بارے میں ایک کالم لکھا ہےجس میں وہ کہتے ہیں کہ جیسے جیسے ترکی میں انتخابات کی تاریخ قریب آرہی ہے، بہت سے امریکی اور یورپی میڈیا نے اپنی نیوز کوریج میں ترکی اور اردگان کے خلاف سخت اور تنقیدی سرخیوں کی خوراک بڑھا دی ہے ،وہ اس سمت میں فیصلہ کن طور پر کام کر رہے ہیں اور ثابت قدم ہیں، حال ہی میں فارن پالیسی، دی وال سٹریٹ جرنل، دی اکانومسٹ، بلومبرگ، دی واشنگٹن پوسٹ اور جرمنی کے STERN میگزین نے ترکی اور صدر اردگان کو نامکمل، مسخ شدہ اور جھوٹی خبروں سے نشانہ بنایا ہے۔ یہ صورتحال روایتی طور پر ہر الیکشن سے پہلے کئی بار دہرائی جاتی رہی ہے، خاص طور پر استنبول گیزی پارک کی بغاوت کے بعد۔
ان کا کہنا ہے کہ اردگان کے بارے میں مغربی میگزینس کے سرورق کی تصاویر عام طور پر توہین آمیز ہوتی ہیں، متعلقہ مواد کی سرخیوں کا مقصد بھی خوف کی فضا پیدا کرنا ہوتا ہے اس لیے کہ ان کا ہدف یہ ہے کہ قارئین کے ذہنوں میں ایک منفی احساس اور اثر و رسوخ پیدا کیا جائے تاکہ ترکی کو تباہ اور اردگان کو نیست و نابود کیا جا سکے،مثال کے طور پر بدقسمتی سے ہم نے دیکھا کہ اردگان کی تصویر کو ہلال اور ستارے کے جھنڈوں یا خون ٹپکنے والے راکٹوں کے درمیان میں رکھا گیا ہے ،اے ڈی پی کے حامی تجزیہ کار کا خیال ہے کہ مغربی میڈیا کے ان اقدامات کا مقصد آئندہ انتخابات کے نتائج کو تبدیل کرنا ہے جبکہ ترک عوام انگریزی، جرمن، فرانسیسی، ڈچ اور دیگر زبانوں میں شائع ہونے والے ان میڈیا کے مواد کو نہیں جانتے!
ظفر مشہ نے اپنے کالم میں ایک ایسے مسئلے کا ذکر کیا جو ترکی کے فیلڈ سروے میں حاصل ہونے والے نتائج کے برعکس ہے،انہوں نے لکھا کہ ترک انتخابات کے موقع پر ہونے والے تمام حالیہ پولز میں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی اور اردگان کی مقبولیت میں اضافے کا رجحان جاری ہے جس نے مغربی میڈیا کے ساتھ ساتھ اردگان کے اپوزیشن اتحاد کو بھی مایوس کیا ہے، یہی وجہ سے مغربی میڈیا حلقے ڈھٹائی سے ان پر حملہ کر رہے ہیں، عام طور پر اردگان کو نشانہ بنانے والے تجزیوں کے عنوان اور مواد میں دشمنی، بہتان اور غلط معلومات پر مبنی پروپیگنڈا دیکھنے کو ملتا ہے، ان میں سے کچھ جھوٹے پروپیگنڈے کی سرخیاں اس طرح ہیں۔
اردگان اقتدار میں رہنے کے لیے لڑ رہے ہیں، ترک جمہوریت کا خاتمہ، ترکی ایک آمریت کے دہانے پر ہے، اردگان آتش زنی ہے، اردگان اپوزیشن کو تباہ کر رہے ہیں، ان کی کمان میں عدلیہ سست، اردگان عام انتخابات میں دھاندلی کرکے دوبارہ اقتدار حاصل کریں گے،اس کا مطلب یہ ہے کہ مغربی میڈیا گمراہ کن اور اشتعال انگیز جھوٹ کی اس مہم کے ساتھ جو خبریں شائع کرتا ہے اس میں غیر جانبداری کے اصول کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
جرمن میگزین STERN میں ترکی کے صدر رجب طیب اردگان پر الزام لگایا گیا ہے کہ ان کی پیوٹن کے ساتھ دوستی اور ان کے ساتھ مذاکرات کی وجہ نیٹو کو کمزور کرنا اور شام کی جنگ ہے۔گزشتہ دنوں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے حامی اہم اخبارات میں سے ایک صباح اخبار اور اردگان کے مشیروں ابراہیم کلان اور برہان الدین دوران کی سربراہی میں کام کرنے والا ستا نے مغربی میڈیا کے اردگان پر حملوں کی درج ذیل وجوہات ذکر کی ہیں:
1. اردگان نے بڑے بین الاقوامی اسٹیج پر کھیلنا سیکھ لیا ہے اور مغربی لیڈروں کو اچمز میں ڈال دیا ہے۔
2. اردگان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کسی کو تاوان ادا نہیں کرتے اور مغربی لوگ ان کی اس خصوصیت سے خوفزدہ ہیں!
3. اردگان کے فکری افق کی وجہ سے، ترکی ایک موثر عالمی علاقائی طاقت اور ایک ایسا ملک بن گیا ہے جو مغرب کے خلاف اپنے موقف پر ڈٹا ہوا ہے۔
4. ترکی اپنے پیروں پر کھڑا ہے اور اسے مغرب کی ضرورت نہیں ہے۔
5. بدقسمتی سے، مغربی میڈیا کا مخالف حلقوں کے دعووں اور باتوں کو قبول کرنا، بالخصوص ترکی کے حوالے سے، ایک دائمی بیماری اور بری عادت بن چکی ہے۔
6. ترکی کے سیاسی نظام اور سماجی و ثقافتی سیاسی ڈھانچے کا مکمل مطالعہ کرنے میں مغربی میڈیا کی نااہلی اور تاریخی اور موجودہ صورتحال کے سلسلہ میں ان کا محدود نظریہ غلط تشخیص کا باعث بنتا ہے،اسی وجہ سے مغربی میڈیا خصوصاً گزشتہ 10 برسوں میں ترکی پیش آنے والی تقریباً کسی بھی صورتحال کو مثبت اور تجزیاتی انداز میں نہیں سمجھ سکا۔
جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی حمایت کرنے والے اداروں کی طرف سے اردگان پر حملہ کرنے کے لیے مغربی میڈیا کے محرک کے طور پر بیان کردہ وجوہات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اردگان حکومت مغربی دنیا کے بعض سیاسی اور میڈیا حقائق سے بے خبر ہے،بلاشبہ ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ بہت سا مغربی میڈیا نہ صرف ترکی کے خلاف بلکہ پوری اسلامی دنیا کے خلاف امتیازی، دشمنانہ، نسل پرستانہ اور منفی رویہ رکھتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اردگان کے اپنے بہت سے رویے اور موقف بھی مسائل کا شکار ہیں،مثال کے طور پر، آرمینیائی اور یونانی صحافیوں کی ایک بڑی تعداد یورپ اور امریکہ میں موجود ہے جو آرمینیائی لابیوں اور یونانی کے اہداف کی پیروی کرتے ہوئے اپنے مواد اور رپورٹس میں اردگان کی دھمکیوں کا براہ راست اور بالواسطہ جواب دیتے ہیں، مثال کے طور پر اردگان نے اپنے پڑوسی ملک یونان کو دھمکی دی ہے کہ ہم آدھی رات کو اچانک حملہ کر سکتے ہیں اور آپ کو قتل کر سکتے ہیں،ان الفاظ کی اشاعت کے صرف دو دن بعد کئی مغربی ذرائع ابلاغ میں ایسے مواد اور مسائل پر بات کی گئی ہے جن میں اردگان کی حکومت اور جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کی بنیادی کمزوریاں اور مسائل شامل ہیں۔
آخر میں، یہ کہنا چاہیے کہ روایتی اور مشہور مغربی میڈیا کے پاس ترک عوام کے سیاسی اور سماجی رجحانات اور ان کے انتخابی نیز جماعتی نقطہ نظر پر بالواسطہ یا بلاواسطہ اثر انداز ہونے کی طاقت، امکان اور صلاحیت نہیں ہے، تاہم ان کے متعدد مضامین اردگان اور جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کی عملی اور چیلنجنگ پالیسیوں پر تنقید کرنے کے ساتھ ساتھ ترکی میں تنقیدی صحافیوں اور آزاد میڈیا کی مشکل صورتحال کی واضح تصویر پیش کرتے ہوئے اقتصادی بحران کو اردگان کی غیر موثر پالیسی سے جوڑتے ہیں اور اس کی عکاسی کرتے ہیں، اس کے علاوہ حزب اختلاف کی جماعتوں کے رہنماؤں کے خلاف اردگان کی سخت اور توہین آمیز تقریریں ان مسائل میں شامل ہیں جو مغربی سیاستدانوں کی توجہ مبذول کراتے ہیں اور انہیں اس نتیجے پر پہنچاتے ہیں کہ انقرہ کے ساتھ سفارتی تعلقات کو فی الحال معتدل سطح پر روک دیا جانا چاہیے اور ترکی اور مغرب کے درمیان تعلقات کے بارے میں اہم حکمت عملی آئندہ انتخابات کے بعد تک ملتوی کردی جانی چاہئے۔