سچ خبریں:اپریل 2021ء میں جب سے اردن کے بادشاہ کے خلاف بغاوت کو ناکام بنانے کی خبریں شائع ہوئیں جس میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور اردنی شاہ عبداللہ کے سوتیلے بھائی کے ہاتھ کا انکشاف ہوا، تب سے عمان اور ریاض کے تعلقات نہ صرف یہ کہ بحال نہیں ہوئے بلکہ دن بہ دن خراب ہوتے چلے گئے۔
ایسا لگتا ہے کہ سابق سعودی وزیر دفاع اور موجودہ ولی عہد یمن کے خلاف جنگ شروع کرنے اور اس ملک میں ہزاروں بے گناہوں کا خون بہانے والے محمد بن سلمان دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت بند کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے، کبھی لبنان کے سابق وزیر اعظم سعدالدین حریری کو یرغمال بناتے ہیں اور انہیں ریاض میں اپنے عہدے سے مستعفی ہونے پر مجبور کرتے ہیں تو کبھی شام کے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں ہے اور اور اپنے اتحادیوں کی مدد سے قطر کا محاصرہ کرتے ہیں، بظاہر اب ان کی مداخلت کی سوئی اردن کی طرف مڑ رہی ہے اور وہ اپنے پرانے یہودی اتحادی اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر کی مدد سے اردن کے شاہ عبداللہ کو راستتے سے ہٹانے یا اپنے ساتھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
لبنانی اخبار الاخبار نے اس بارے میں ایک اپنے ایک کالم میں لکھا ہے کہ اردن کو برسوں سے مختلف سطحوں پر خاص طور پر اقتصادی سطح پر خراب حالات کا سامنا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ حالات امریکہ اور سعودی عرب کا اردن پر ایک مخصوص ایجنڈا مسلط کرنے کے مقصد کے ساتھ ایک غیر اعلانیہ پابندی کا نتیجہ ہیں، ایک ایسا ایجنڈا جس کے بارے میں اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے ایک سال قبل اردنی میڈیا کے ایک گروپ کے سامنے کھل کر بات کی تھی اور سابق امریکی صدر کے داماد جیرڈ کشنر پر اسے نافذ کرنے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا تھا، انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اردن کے خلاف سازش کر رہے ہیں اور برادر عرب ممالک جیسے عراق، کویت اور متحدہ عرب امارات کو اردن کی امداد کرنے سے روک رہے ہیں،اردن کے بادشاہ کے اپنے ملک کی حالت کے بارے میں ہر سطح پر بیانات میں صدی کی ڈیل کی طرف اشارہ ہے جو کشنر نے امان پر مسلط کرنے کا ارادہ کیا ہے اور اس کے علاوہ انہوں نے اپنے سوتیلے بھائی شہزادہ حمزہ کی ناکام بغاوت کی طرف بھی اشارہ کا جو بن سلمان کے مشیر باسم عوض اللہ، جو اس وقت اردنی حکام کی حراست میں ہیں، کی مدد سے کی گئی،عوض اللہ کو سعودی ولی عہد اور شہزادہ حمزہ کے درمیان ایلچی سمجھا جاتا ہے، حالانکہ ریاض حکام نے بغاوت میں اپنے ملوث ہونے کے ثبوت کو مٹانے کی کوشش کی ۔
واضح رہے کہ عین اسی وقت جب بن سلمان اردن خلاف اقدامات کر رہے ہیں اور اس ملک سے منہ موڑ رہے ہیں، اردن کے بادشاہ امارات کے صدر محمد بن زاید آل نہیان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے اور اپنے ملک کے خلاف غیر ملکی امداد کی وجہ سے غیر اعلانیہ ناکہ بندی اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ صورتحال ایسے وقت میں پیش آئی جب اردن میں معاشی مسائل، بے روزگاری اور بعض اردنی شہریوں میں ہتھیاروں کی موجودگی نے اس ملک کے مختلف شہروں اور صوبوں میں احتجاجی مظاہروں جنم دیا جو اس ملک کے عوام اور حکومت کے لیے مشکلات کا باعث بنے، جن کی ابتدا بن سلمان نے کی ۔
وادی عربہ معاہدے کے مطابق بیت المقدس میں اسلامی اور عیسائی مقدس مقامات کی حفاظت اردن کی ذمہ داری ہے اور کئی سالوں سے صیہونی حکومت کے حکام اس معاملے میں مشکلات پیدا کر رہے ہیں لیکن اس سلسلے کا تعلق صیہونی حکومت سے نہیں بلکہ اس میں بنیادی مسئلہ فلسطین میں اسلامی مقدس مقامات کا انتظام سنبھالنے میں ریاض اور ابوظہبی کے درمیان مقابلے سے ہے،بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں، خاص طور پر قرارداد 181 کے مطابق، اردن کے پاس بیت المقدس کی سرپرستی کا تاریخی جواز ہے،اردن کا موقف اس حقیقت پر مبنی ہے کہ مشرقی بیت المقدس ایک مقبوضہ سرزمین ہے جس کی خودمختاری فلسطینیوں کی ہے جہاں اسلامی اور عیسائی مقدس مقامات اور اس شہر کی حفاظت کی ذمہ داری اردن کے بادشاہ کی ہے،2018 میں بعض عرب ذرائع نے اطلاع دی کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب اردن کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے القدس شہر اور مسجد اقصیٰ کے آس پاس کے علاقوں میں دفاتر قائم کرنے اور بیت المقدس کی سرپرستی سنبھالنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں،اس وقت فلسطین ٹوڈے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ان ذرائع کے حوالے سے کہا تھا کہ اب تک حاصل ہونے والی معلومات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے مسجد اقصیٰ کے قرب و جوار میں ایک عمارت خریدنے کی کوشش کی تاکہ اس میں القدس شہر میں سعودی اماراتی مشترکہ دفتر کھولا جائے ان ذرائع کے مطابق اس دفتر کو بنانے کا مقصد القدس شہر میں محکمہ اوقاف کے ساتھ کام کرنا اور اس کے متوازی کردار ادا کرنا ہے جو اردنی محکمہ اوقاف سے منسلک ہے۔
ان ذرائع نے تاکید کی کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات مقبوضہ شہر القدس میں اپنے موجودگی کی کوشش کر رہے ہیں جو ان کے لیے مسجد اقصیٰ اور القدس شہر کے تمام اسلامی اوقاف کی سرپرستی میں اردن کے حریف کے طور پر کردار ادا کرنے کا ایک قدم ہے، مذکورہ ذرائع نے کہا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کوشش کر رہے ہیں کہ اردن کی حکومت مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے حوالے سے صدی کی ڈیل کے نفاذ اور اردن کو سعودی مالی امداد کی بحالی کے بدلہ میں اس کے حکم کی تعمیل کرے، یاد رہے کہ یہ سب اس سے قبل اور ایسے وقت میں ہوا جب متحدہ عرب امارات اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کا باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا تھا اور ان کے ایک دوسرے کے ساتھ خفیہ تعلقات تھے، فلسطین کی اسلامی تحریک مزاحمت کے نائب سربراہ کمال الخطیب کی کوششوں سے ایک اماراتی تاجر جو ابوظہبی کے ولی عہد محمد بن زائد کے بہت قریب ہے، نے قدس شہر کے پرانے حصے میں مسجد اقصیٰ کے قریب ایک گھر خریدنے کا اعلان کیا ۔
یاد رہے کہ حالیہ برسوں میں، خاص طور پر صیہونی حکومت کے ساتھ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے درمیان مفاہمتی معاہدے پر دستخط کے بعد سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے بھی اردن کو القدس اوقاف کونسل میں ایک فیصلہ ساز کی حیثیت سے موجود ہونے سے ہٹانے کے لیے اپنی کوششیں دوبارہ شروع کر دی ہیں اور صہیونیوں کی مدد سے اپنا مقصد حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اس سلسلے میں گزشتہ سال اخبار اسرائیل ہیوم نے اردن، متحدہ عرب امارات، بحرین اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان طے پانے والے معاہدے کا اعلان کیا تھا جس میں خلیج فارس کے ممالک کے سیاحوں کے بیت المقدس کی قابض حکومت کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے جس کے مطابق طے پایا کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے سیاح جو مقبوضہ علاقوں میں داخل ہوتے ہیں اور مسجد اقصیٰ کا دورہ کرنا چاہتے ہیں، وہ اردنی اور فلسطینی دروازوں سے مسجد اقصیٰ میں داخل ہوں۔ یہ خبر اردن کے رد عمل کے بعد سامنے آئی اور اس خبر کی تردید کرتے ہوئے اس ملک نے اس بات پر زور دیا کہ بین الاقوامی قوانین اور موجودہ تاریخی اور قانونی دستاویزات کے مطابق، بیت القمدس کا محکمہ اوقاف اور اردن مسجد اقصیٰ کے امور میں واحد اتھارٹی ہے جس کے پاس اس مقدس مقام کے تمام معاملات کو سنبھالنا، اس کے داخلے اور باہر نکلنے کا انتظام اور ایڈجسٹ کرنے کا خصوصی اختیار ہے۔
فلسطینی مسائل کے بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اردن کی جانب سے اس مقصد کی مخالفت کے بعد، جس کا محور عبرانی عربی ہے، شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ بن سلمان نے اردن کو القدس اوقاف انتظامیہ کی فیصلہ ساز کونسل سے ہٹانے کی کوشش کی جس کے پاس مسجد اقصیٰ اور اس کے اخراج اور داخلے کو مربوط کرنے پر مبنی تمام امور کا دائرہ اختیار ہے، اس حوالے سے اردنی ایوان نمائندگان کے ایک رکن طارق الخور ی نے کہا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان فلسطین کے مقدس مقامات کا کنٹرول سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ مسجد الاقصیٰ اور مقدس مقامات کی اردن کی نگہبانی ایک تاریخی مسئلہ ہے،اس سے لے کر سعودی عرب یا کسی دوسرے ملک کو دینا ممکن نہیں ہے،اردن کی پارلیمنٹ کے نمائندے نے اس بات پر زور دیا کہ اس مقدس شہر کی حفاظت پوری ملت اسلامیہ کی ذمہ داری ہے اور یہ ایسی چیز نہیں ہے جس کا تعلق صرف اردن، سعودی عرب یا فلسطینیوں سے ہو نیز فلسطین کے مقدس مقامات کے ساتھ تجارت نہیں کی جاسکتی۔