سچ خبریں: اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کی جانب سے فلسطین کی ایک آزاد ریاست کے قیام کی قرارداد کی منظوری کے ساتھ ہی اس کو تسلیم کرنے کے لیے یورپی اداکاروں کا اضافہ غزہ جنگ میں صیہونی حکومت کی اسٹریٹجک تنہائی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے جمعہ (21 مئی) کو ایک قرارداد منظور کرتے ہوئے سلامتی کونسل سے کہا ہے کہ وہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی درخواست پر مثبت رائے سے نظرثانی کرے اور فلسطین کو اقوام متحدہ کا 194 واں رکن تسلیم کرے۔
یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ میں فلسطین کی مکمل رکنیت کا طریقہ کار کیا ہے؟
اس قرارداد کے مسودے کے حق میں 143 ووٹ،مخالفت میں 9 جبکہ 25 کی غیر حاضری کے ساتھ منظور کیا گیا یعنی اقوام متحدہ کے 193 ارکان میں سے 143 ممالک نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔
اس قرارداد کی منظوری نے دنیا کو صیہونی حکومت کی تنہائی کا پیغام دیا اور اس حکومت کے حکام کو پریشان اور خوفزدہ کر دیا، ووٹنگ سے قبل، اقوام متحدہ میں قابض حکومت کے مستقل نمائندے گیلاد اردان نے جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران، ایک پوسٹر تھامے ہوئے، اقوام متحدہ کے چارٹر کو کاغذ کے ٹکڑوں میں پھینک دیا جو کہ صیہونیوں کی حقیقت کا واضح مظاہرہ ہے۔
فلسطین کی آزاد ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے یورپی اداکاروں کا پختہ عزم
فلسطینی اتھارٹی کو اس وقت بلغاریہ، پولینڈ، چیک ریپبلک، رومانیہ، سلوواکیہ، ہنگری، قبرص اور سویڈن سمیت یورپی یونین کے آٹھ ارکان تسلیم کرتے ہیں لیکن حالیہ مہینوں میں غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم نے اس عمل کو تیز کردیا ہے۔
گذشتہ نومبر میں اسپین کی میزبانی میں ہونے والے اجلاس کے دوران عرب ممالک اور یورپی یونین نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ دو ریاستی حل ہی فلسطین اور صیہونی حکومت کے درمیان تنازع کے خاتمے کا واحد راستہ ہے۔
چند روز قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے قرارداد کی منظوری کے ساتھ ہی یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے انچارج جوزف بوریل نے بھی اعلان کیا کہ اسپین، آئرلینڈ، سلووینیا اور غالباً کئی دیگر یورپی ممالک وہ 21 مئی کو فلسطین کی آزاد ریاست کو تسلیم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کسی ریاست کی آزادی کو تسلیم کرنا سیاسی نوعیت کا ایک علامتی عمل ہے، جس کی شاید بیلجیم اور دیگر یورپی ممالک پیروی کریں گے، یاد رہے کہ یہ حقیقت دیگر یورپی حکام کی زبان سے پہلے ہی میڈیا میں آچکی ہے جیسے ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سانچیز جنہوں نے مارچ میں اعلان کیا تھا کہ سلووینیا اور مالٹا کے ساتھ اسپین اور آئرلینڈ نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے پہلا قدم اٹھانے پر اتفاق کیا ہے۔
ہسپانوی وزیر خارجہ جوز مینوئل البریز اور سلووینیا کے وزیر اعظم رابرٹ گلوب کا بھی اسی طرح کا موقف تھا، ہسپانوی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ فلسطین کو تسلیم کرنے کے حوالے سے فیصلہ ہو چکا ہے تاہم انہوں نے اس کے اعلان کی تاریخ کا ذکر نہیں کیا، سلووینیا کے وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ ان کا ملک جون کے وسط تک فلسطینی حکومت کو تسلیم کر لے گا۔
اب یورپی ممالک نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے گیند سلامتی کونسل کے میدان میں گرا دی ہے اور اس کونسل میں اس کی منظوری کی توقع ہے، اس سلسلے میں ناروے کے وزیر خارجہ ایسپین بارٹ ایدی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ان کے ملک نے جنرل اسمبلی میں فلسطین کی مکمل رکنیت کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا ہے، اس تنظیم کی سلامتی کونسل میں فلسطین کی مکمل رکنیت کی منظوری کا مطالبہ کیا اور اس بات پر زور دیا کہ سلامتی کونسل میں فلسطین کی مکمل رکنیت کی منظوری دی جائے اس لیے کہ فلسطین کو بھی اقوام متحدہ کا مکمل رکن ہونا چاہیے۔
امریکہ؛ سلامتی کونسل میں سب سے بڑی رکاوٹ
اقوام متحدہ بالخصوص سلامتی کونسل میں امریکی سازشوں کی تحقیقات کے لیے اس معاملے کا تاریخی جائزہ لینا ہوگا، اپریل کے اوائل میں، فلسطین نے سلامتی کونسل کو اقوام متحدہ میں مکمل رکنیت کے لیے اپنی درخواست پر نظر ثانی کی درخواست پیش کی جو 2011 میں پیش کی گئی تھی۔
29 نومبر 2012 کو فلسطین کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ووٹوں کی بھاری اکثریت سے بطور مبصر تسلیم کیا گیا، تاہم اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق اس تنظیم میں کسی ملک کی رکنیت کے لیے سلامتی کونسل کے 15 میں سے 9 ارکان کی مثبت سفارش کے بعد جنرل اسمبلی کے ووٹوں کی دو تہائی اکثریت کے ساتھ قرارداد کی منظوری درکار ہوتی ہے، بشرطیکہ اس کونسل کے پانچ مستقل ارکان (روس، چین، امریکہ، فرانس اور انگلینڈ) میں سے کوئی بھی اس درخواست کی مخالفت نہ کرے۔
اس لیے اب تک فلسطین جو اس وقت اقوام متحدہ کا مبصر رکن ہے، کو اس تنظیم کا مستقل اور مکمل رکن تسلیم کرنے کی کوششیں امریکی ویٹو کی وجہ سے ناکام ہو چکی ہیں۔
اب جبکہ اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت کا حتمی فیصلہ اس بین الاقوامی ادارے کی سلامتی کونسل میں ہونا ہے، توقع ہے کہ امریکہ ایک بار پھر اس تجویز کو ویٹو کر دے گا۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ میں بھی امریکہ نے اقوام متحدہ میں فلسطینی رکنیت کو قبول کرنے کی مجوزہ قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا، جس کی تجویز الجزائر نے پیش کی تھی جبکہ اس قرارداد پر 12 ممالک نے اتفاق کیا اور انگلینڈ اور سوئٹزرلینڈ نے ووٹنگ سے پرہیز کیا۔
واضح رہے کہ فلسطینی قوم کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم اور مظالم کی واشنگٹن جانب سے کی اندھی حمایت حالیہ دہائیوں میں ہمیشہ واضح رہی ہے، امریکہ اس حکومت کی حمایت کے لیے تقریباً 50 بار اپنے ویٹو کا حق استعمال کر چکا ہے اور اسے فلسطینیوں کا قتل عام جاری رکھنے کے لیے گرین لائٹ دے چکا ہے، جن میں سے چار غزہ کی پٹی کے خلاف موجودہ جارحیت کے دوران تھے۔
خلاصہ
اگرچہ جمعے کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد سے فلسطین اقوام متحدہ کا مکمل رکن نہیں بن سکا اور اب بھی ووٹ دینے کے حق سے محروم ہے لیکن دوسری طرف یہ قرارداد فلسطین کو مزید حقوق اور مراعات دیتی ہے جیسے کہ اقوام متحدہ کے مختلف اداروں میں شامل ہونا؛ مثال کے طور پر،یہ قرارداد فلسطین کو مکمل طور پر بات چیت میں حصہ لینے، ایجنڈے پر آئٹمز تجویز کرنے اور کمیٹیوں میں اپنے نمائندوں کو منتخب کرنے کی اجازت دیتی ہے۔
اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مذکورہ قرارداد کی منظوری، چاہے اسے گزشتہ ادوار کی طرح امریکی ویٹو اور سلامتی کونسل میں رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑے، لیکن عملی طور پر یہ فلسطینی عوام کے ایک آزاد ریاست کے قیام کے مطالبہ کی بین الاقوامی حمایت میں اضافے کی نشاندہی کرتی ہے۔
آبادی، زمین، حکمت اور خودمختاری کے ساتھ ایک آزاد ملک کے حالات سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ، فلسطین ہمیشہ بین الاقوامی اداروں میں رکنیت سمیت اپنی قوم کے حقوق کی تکمیل کے لیے علاقائی اور عالمی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے حتیٰ کہ مسلح مزاحمت میں فلسطینیوں کا نقطہ نظر بھی جارح اور قابض کے خلاف جائز دفاع کے حوالے سے اقوام متحدہ کے چارٹر کے قوانین اور شقوں پر مبنی ہے۔
اس لیے اس حقیقت کو عملی طور پر بھی دکھایا گیا، تاکہ دنیا کے 143 ممالک فلسطین کو اقوام متحدہ میں شامل ہونے کا اہم ملک سمجھتے ہیں، جس کے پاس اس مقصد کے حصول کے لیے ضروری شرائط موجود ہیں۔
مزید پڑھیں: فلسطین کو تسلیم کرنے پر اقوام متحدہ کے ارکان کا ردعمل
فلسطین کی آزاد ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے یورپی ممالک کے ٹھوس اقدام کو اسی رویے کے تسلسل سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، ایک ایسی حقیقت جو غزہ کی پٹی میں سات ماہ سے جاری صیہونی نسل کشی اور اس میں 35 ہزار سے زائد بے گناہ شہریوں کی شہادت کی وجہ سے صیہونی حکومت کی اسٹریٹجک تنہائی اور فلسطین کی طرف دنیا کے عوام اور سیاستدانوں کے رجحان کا منہ بولتا ثبوت ہے۔