کراچی: (سچ خبریں) لکھاری و ڈراما ساز خلیل الرحمٰن قمر کا کہنا ہے کہ خواتین کا بولڈ لباس پہننا اور ان کی جانب سے پورے کپڑے نہ پہننا مرد کو ہراساں کرنا ہے اور ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ مرد ہی ہراساں ہوتا ہے۔
خلیل الرحمٰن قمر نے حال ہی میں ’ایف ایچ ایم‘ میگزین کے پوڈکاسٹ میں شرکت کی، جہاں انہوں نے ایک بار پھر کھل کر خواتین پر تنقید کی اور دعویٰ کیا کہ ان کےخلاف 35 سے 36 خواتین پیسوں کے عوض مہم چلا رہی ہیں۔
ڈراما ساز نے کہا کہ ان کے خلاف ماضی میں جو مہم چلائی گئی، وہ پیسوں کے عوض چلائی گئی، ان کے خلاف واویلا کرنے والی 35 سے 36 خواتین کو پیسے ملتے رہے۔
انہوں نے کہا کہ انہیں مذکورہ خواتین کی ایمانداری پر فخر ہے، وہ اچھی طرح نوکری کر رہی ہیں، وہ بیچاریاں کما رہی ہیں، ان کے پاس اور کوئی روزگار نہیں ہے۔
ان کے مطابق مذکورہ خواتین میں سے جو شادی شدہ ہیں، ان کی شادیاں صرف سننے اور پڑھنے کی ہیں، انہوں نے اس طرح کی بہت ساری شادیاں دیکھ رکھی ہیں۔
ڈراما ساز نے ماضی میں سماجی کارکن ماروی سرمد کے ساتھ ٹی وی شو میں ہونے والے جھگڑے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹی وی پر صرف ان کے غصے والی کلپ چلائی گئی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ شو چھوڑ کر چلے گئے تھے لیکن پھر وہ اپنی باتوں کو ثابت کرنے کے لیے واپس آگئے تھے۔
خیال رہے کہ خلیل الرحمٰن قمر نے 2020 میں ٹی وی پروگرام کے دوران ماروی سرمد کے خلاف نازیبا الفاظ کا استعمال کیا تھا، جس پر ملک بھر میں تنازع ہوا تھا اور ان پر تنقید کی گئی تھی۔
خلیل الرحمٰن قمر نے کہا کہ انہیں پروگرام پر ’باپ سے چاہیے آزادی اور بھائی سے چاہیے آزادی‘ سمیت ایک گھٹیا نعرے پر بحث کرنی تھی۔
ساتھ ہی انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان سے بڑا اور کوئی فیمنسٹ نہیں ہے، کیوں کہ انہوں نے انہیں شروعات میں پیش کش کی تھی کہ وہ ان کے ساتھ مل کر کام کریں، وہ انہیں اچھے سلوگن بھی بنا کر دیں گے۔
’میرا جسم میری مرضی‘ کے نعرے کو نظر انداز کردیتے سے متعلق پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ان کی تین بیٹیاں ہیں جب کہ ان کے لیے ان کی عورت بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے کیوں کہ عورت کی وجہ سے ہی ان کا معاشرہ چل رہا ہے، وہ کیسے اس نعرے کو نظر انداز کر سکتے تھے؟
انہوں نے پوڈکاسٹ میزبان کو کہا کہ وہ اب بھی ماروی سرمد سمیت تمام خواتین کے ساتھ بحث کرنے کو تیار ہیں، وہ انہیں بلائیں، وہ ان کے ساتھ پروگرام کرنے کو تیار ہیں۔
پوڈکاسٹ میں بات کرتے ہوئے خلیل الرحمٰن قمر نے اس بات کا شکوہ کیا کہ ماہرہ خان نے انہیں شادی کی دعوت نہیں دی اور ساتھ ہی کہا کہ اگر انہیں وہ دعوت نامہ بھجواتیں تو بھی وہ نہ جاتے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ماہرہ خان ان کے خلاف پیسوں کے عوض مہم چلانے کا حصہ نہیں ہے، ان کے پاس بہت پیسا ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے اداکارہ کے حوالے سے طنزیہ انداز میں کہا کہ ماہرہ خان کے پاس پیسے کے علاوہ شکل بھی اچھی ہے۔
ڈراما ساز کے مطابق ماہرہ خان ان کے خلاف پیسوں کے عوض مہم چلانے والوں میں شامل نہیں، البتہ اداکارہ نے ان کے خلاف گھٹیا ٹوئٹ کرکے غلطی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ماہرہ خان ٹوئٹ کرنے کے بجائے انہیں فون کرکے ان کے ساتھ ناراضی کا اظہار کرسکتی تھیں اور وہ انہیں دلائل دیتے۔
خلیل الرحمٰن قمر نے پروگرام میں بات کرتے ہوئے ماضی کا دردناک قصہ بتایا کہ ان کی ڈھائی سال کی بیٹی کئی سال قبل فوت ہوگئی تھیں۔
ان کے مطابق ان کی بیٹی نے غلطی سے پیٹرول پی لیا تھا، جس کے باعث وہ چل بسیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت وہ بینک میں کم اجرت پر ملازمت کرتے تھے اور ان کے پاس موٹر سائیکل تھی، جس کا پیٹرول ایک گلاس میں رکھا گیا تھا اور بیٹی نے غلطی سے وہ پی لیا۔
انہوں نے بتایا کہ جب بیٹی نے پیٹرول پیا، اس وقت وہ گھر پر نہیں تھے۔
ڈراما ساز نے پروگرام میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ بیٹی کی موت پر دھاڑیں مار کر روئے تھے۔
خلیل الرحمٰن قمر نے مردانگی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مرد روتے ہوئے اچھا نہیں لگتا، اسے کبھی رونا نہیں چاہیے۔
ڈراما ساز نے مرد کو ہراساں کرنے سے متعلق پوچھے گئے سوال پر کہا کہ ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ ہراساں مرد ہوتے ہیں۔
انہوں نے دلیل دی کہ لڑکیوں کا پورا لباس نہ پہننا مرد کو ہراساں کرنا ہی ہے اور سب سے بڑی ہراسانی یہی ہے۔
ڈراما ساز نے خواتین کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اگر وہ خود کو ڈھانپ کر نہیں چل رہیں تو وہ مرد کو ہراساں کر رہی ہیں۔
خلیل الرحمٰن قمر نے ہراسانی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مرد لڑکی کو دیکھ رہا ہے، لڑکی کو اچھا لگ رہا ہے تو کوئی ہراسانی نہیں لیکن جب لڑکی کو مرد کا دیکھنا اچھا نہیں لگے تو وہ ہراسانی ہو جائے گی۔
انہوں نے غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسے کلچر پر لعنت بھیجتے ہیں، جس میں خواتین پورا لباس نہیں پہنتیں۔