سچ خبریں: سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کی نو مئی 2023 کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتاری کے بعد تحریک انصاف کے کارکنوں نے پرجوش احتجاج کیا۔
تاہم، عمران خان کو عدالت کی جانب سے سزا سنائے جانے اور جیل جانے کے بعد کارکنان اور رہنماؤں میں مایوسی بڑھ گئی۔
تحریک انصاف عام انتخابات میں مرکز میں حکومت بنانے میں ناکام رہی، لیکن خیبرپختونخوا میں پہلے سے بھی زیادہ اکثریت کے ساتھ اپنی حکومت واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کو اسلام آباد میں جلسے کی اجازت نہ ملنے کی وجوہات
عمران خان چونکہ عدالتوں سے سزا یافتہ تھے، تحریک انصاف کے پاس عدالتی فورم پر جدوجہد کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔
ایک سال کے اندر ہی عمران خان کو جن تین مقدمات میں سزا ہوئی تھی، ان میں بری کر دیا گیا، لیکن ان کی رہائی ممکن نہ ہو سکی۔
اس دوران، تحریک انصاف کو اعلیٰ اور ماتحت عدلیہ سے ریلیف مل رہا تھا۔ وفاق میں مضبوط اپوزیشن اور ایک صوبے میں حکومت کے باوجود، پارٹی عمران خان اور ان کی اہلیہ سمیت دیگر رہنماؤں کی رہائی اور انتخابات میں ملنے والے مینڈیٹ کی واپسی کے لیے ملک گیر اور فیصلہ کن تحریک چلانے سے قاصر رہی۔
اس بات پر تحریک انصاف کے رہنماؤں کو اپنے ووٹرز کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
تحریک انصاف کی موجودہ قیادت نے عمران خان کی گرفتاری کا ایک سال مکمل ہونے پر صوابی میں جلسہ کرنے کا اعلان کیا اور طویل عرصے کے بعد بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب ہوئی، مگر یہ جلسہ بھی ان کارکنوں کو مطمئن نہ کر سکا جن کا واحد مطالبہ عمران خان کی رہائی تھا۔
پارٹی کی قیادت جلسے میں بھی کارکنوں کے سامنے کوئی فیصلہ کن لائحہ عمل پیش نہ کر سکی اور کارکنوں کی جانب سے تنقید کا سلسلہ نہ رُک سکا۔
اس صورتحال میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف ملک گیر سطح پر تحریک شروع کرنے سے کیوں گریزاں ہے؟
تجزیہ کار رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی موجودہ قیادت جانتی ہے کہ جنہوں نے عمران خان کو زیرِ حراست رکھا ہوا ہے وہ کسی بڑی تحریک کو چلانے نہیں دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی رہائی صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ ملک کا پورا نظام جام کر دیا جائے، لیکن اسٹیبلشمنٹ کسی صورت اس نظام کو جام نہیں ہونے دے گی۔
تجزیہ کار رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ اپنی پراکسیز، یعنی مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے ذریعے ملک کا نظام چلا رہی ہے۔
ایسے میں وہ کسی صورت اس نظام میں کسی دوسری جماعت کو خلل ڈالنے کی اجازت نہیں دے گی۔
ان کے مطابق تحریک انصاف اکیلی اتنی بڑی تحریک نہیں چلا سکتی، اگرچہ جماعت اسلامی کا احتجاج جاری ہے اور ملک کے دیگر حصوں میں بھی احتجاج اور دھرنے ہو رہے ہیں، لیکن فوری طور پر تحریک انصاف بڑی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں۔
رئیس مزید کہتے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں، جہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے، جلسہ کر لینا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
جب تک پنجاب میں تحریک شروع نہیں ہوگی اور پنجاب سے تحریک انصاف کے کارکنوں کو متحرک نہیں کیا جاتا، اس وقت تک حکومت یا اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کی میز پر نہیں آ سکتی۔
سیاسی امور کے ماہر ماجد نظامی نے کہا کہ نو مئی کے بعد پنجاب میں تحریک انصاف کی تنظیم اس قابل نہیں رہی کہ وہ لوگوں کو باہر نکال سکے یا کوئی احتجاج شروع کر سکے۔
تنظیم اس وقت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، کچھ لوگ گرفتار ہیں اور کچھ پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ اس لیے سوشل میڈیا کے علاوہ لوگوں کو متحرک کرنا مشکل ہو چکا ہے۔
ماجد نظامی کے مطابق، تحریک انصاف کوئی بھی ایسا احتجاج یا تحریک افورڈ نہیں کر سکتی جس میں تشدد کا عنصر شامل ہونے کا امکان ہو۔
نو مئی کی صورتحال نے پارٹی کو پہلے ہی دھچکا پہنچایا تھا، اس لیے اب وہ بہت محتاط ہیں۔ حتیٰ کہ جب عمران خان جی ایچ کیو کے باہر احتجاج کو اپنا حق سمجھتے ہیں، تو تحریک انصاف کے رہنما ان کے اس بیان سے بظاہر اتفاق نہیں کرتے اور اس کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
تجزیہ کار ماجد نظامی کے مطابق، تحریک انصاف موسم کی تبدیلی کا انتظار کر رہی ہے، چاہے وہ حقیقی موسم ہو یا سیاسی موسم۔ اس کے ساتھ وہ اعلیٰ عدلیہ میں بھی تبدیلیوں کی منتظر ہے۔
ان کا خیال ہے کہ نئے چیف جسٹس کے آنے کے بعد صورتحال میں بہتری آئے گی۔ تاہم، یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب تک پنجاب میں لوگ متحرک نہیں ہوں گے، ملک کے دیگر حصوں میں کیے جانے والے احتجاج کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کی موجودہ قیادت سیاسی طور پر اتنی مضبوط اور مقبول نہیں کہ وہ ملک گیر تحریک شروع کر سکے۔
اس حوالے سے تجزیہ کار اجمل جامی کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کی موجودہ قیادت سیاسی لحاظ سے اتنے روابط نہیں رکھتی کہ وہ لوگوں کو متحرک کر سکے۔
اگر شاہ محمود قریشی، پرویز الہی اور فواد چوہدری جیسے لوگ موجود ہوتے تو صورتحال مختلف ہو سکتی تھی۔
اجمل جامی نے مزید کہا کہ حال ہی میں تحریک انصاف کو مختلف عدالتوں سے بڑی حد تک ریلیف ملا ہے، اس لیے وہ کوئی بڑی تحریک شروع کرنے سے پہلے مزید عدالتی فیصلوں کے بھی منتظر ہیں۔
تحریک انصاف کے رہنما جانتے ہیں کہ جنہوں نے عمران خان کو زیر حراست رکھا ہوا ہے، وہ کسی بڑی تحریک کو چلانے نہیں دیں گے۔
اس لیے وہ عدالتی فیصلوں پر انحصار کر رہے ہیں اور مزید ریلیف کا انتظار کر رہے ہیں۔
تحریک انصاف کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی تنظیم نو کرے اور پنجاب میں اپنی تنظیم کو دوبارہ فعال بنائے۔
نو مئی کے بعد سے پنجاب میں تحریک انصاف کی تنظیم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، کچھ لوگ گرفتار ہیں اور کچھ پارٹی چھوڑ چکے ہیں،سوشل میڈیا کے علاوہ لوگوں کو متحرک کرنا مشکل ہو چکا ہے۔
مزید پڑھیں: ’کل ڈھونگ رچایا گیا‘، پی ٹی آئی کا جمعہ کو ملک بھر میں مظاہروں کا اعلان
مجموعی طور پر، تحریک انصاف کی قیادت اس وقت کوئی بڑا فیصلہ کن اقدام اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہے اور محتاط انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔
ان کی موجودہ حکمت عملی عدالتی ریلیف اور سیاسی موسم کی تبدیلی کا انتظار کرنا ہے، تاکہ وہ مستقبل میں بہتر پوزیشن میں آ سکیں۔