اسلام آباد: (سچ خبریں) انسدادِ دہشتگردی عدالت اسلام آباد نے ڈی چوک پر احتجاج سے متعلق 2 مقدمات میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اعظم سواتی کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے کیس کی سماعت کی۔
جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے استفسار کیا کہ اعظم سواتی کا مزید جسمانی ریمانڈ کیوں چاہیے؟ کوئی ثبوت دیں، جس پر پراسیکیوٹر راجا نوید کا کہنا تھا کہ اعظم سواتی سے تفتیش کے لیے مزید 3 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا جائے۔
جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ اعظم سواتی سے کیا اسلحہ برآمد ہوا ہے؟ کچھ تو بتائیں؟ جس پر پراسیکیوٹر راجا نوید کا کہنا تھا کہ انہوں نے کارکنان کو اکسایا ہے۔
جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے ریمارکس دیے کہ ثبوت جسمانی ریمانڈ کے لیے ناکافی ہیں۔
رہنما پی ٹی آئی روسٹرم پر آگئے، انہوں نے مؤقف اپنایا کہ مجھ پر مزید مقدمات بھی ہیں جو چھپائے کیوں جا رہے ہیں؟ جس پر جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے ان سے مکالمہ کیا کہ رب پر یقین رکھیں، سب ٹھیک ہوجائےگا۔
انسدادِدہشت گردی عدالت نے اعظم سواتی کو 2 مقدمات میں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
واضح رہے کہ 4 اکتوبر کو اسلام آباد میں احتجاج کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان، عظمی خان، رہنما اعظم سواتی کئی کارکنان کو گرفتار کیا گیا تھا۔
7 اکتوبو کر انسداد دہشت گردی عدالت نے پی ٹی آئی رہنما اعظم سواتی کو 3 دن کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔
پی ٹی آئی کے احتجاج اور تشدد سے متعلق اسلام آباد کے مختلف تھانوں میں 13 مقدمات درج ہیں، جن میں سیکرٹریٹ، سی ٹی ڈی، رمنا، سنگجانی، گولڑہ، کراچی کمپنی، ترنول، سنبل، نون، انڈسٹریل ایریا، کوہسار اور آبپارہ تھانے شامل ہیں۔
حسن ابدال کے تازہ مقدمے میں عمران خان، عظمیٰ خان، علیمہ خان، علی امین گنڈا پور، عمر ایوب، شیخ وقاص اکرم، شوکت بسرا، زین قریشی، نعیم حیدر، اعظم سواتی، بیرسٹر سلمان اکرم راجا، ڈپٹی اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی صغریٰ بی بی، صوبائی وزیر عاقب خان، سابق وزیر زادہ، 11 ارکان صوبائی اسمبلی کے علاوہ 3 ہزار سے زائد کارکنان کے نام شامل ہیں۔
ایف آئی آر میں یہ الزام بھی لگایا گیا کہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں عمر ایوب اور بیرسٹر محمد سیف نے اپنی اشتعال انگیز تقاریر سے مظاہرین کو اکسایا، اعظم سواتی نے فنڈنگ فراہم کی اور وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے وفاقی دارالحکومت پر مارچ کے لیے اپنے صوبے کے عوامی وسائل فراہم کیے۔