سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اس کنونشن کی مشترکہ طور پر میزبانی کی۔
کنونشن کی جانب سے منظور کردہ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ پاکستان بھر کے وکلا آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کے لیے متحد ہیں۔
قرارداد میں کہا گیا کہ یہ پریشان کن ہے کہ بعض سیاسی رہنما اور جماعتیں آئین کی واضح شق کی خلاف ورزی کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہیں، آئین کی دفعات اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات کے ٹائم فریم کے بارے میں واضح ہیں اور سپریم کورٹ نے ان دفعات کی درست تشریح کی ہے۔
قرارداد میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کے پاس آئینی مدت سے تجاوز کرکے انتخابات ملتوی کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے، انتخابات میں تاخیر کا عمل ’غیر آئینی‘ ہے۔
اس میں مزید کہا گیا کہ عدلیہ میں اختلافات کے بارے میں وکلا فکر مند ہیں اور چیف جسٹس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ رہنمائی کریں اور عدلیہ اور بالخصوص عدالت عظمیٰ کے وقار اور سالمیت کو برقرار رکھنے کے لیے سپریم کورٹ کے تمام ججوں کو متحد کریں۔
قرارداد میں بار کونسلز اور ایسوسی ایشنز سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ کسی سیاسی جماعت یا سیاستدان کے دباؤ یا اثر و رسوخ کے بغیر آزادانہ طور پر کام کریں تاکہ ان کا آزادانہ مؤقف یقینی بنایا جاسکے۔
دریں اثنا سندھ بار کونسل نے پارلیمنٹ کے اقدام اور مجوزہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کے ازخود نوٹس پر کارروائی کرنے اور بینچز کی تشکیل کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
سندھ بار کونسل نے مزید تجویز دی کہ اعلیٰ عدلیہ میں ججز کے تقرر کے عمل کو بھی منظم اور شفاف بنانے کی ضرورت ہے، اس طرح کے تقرر کے لیے معیاری طریقہ کار وضع کیا جائے، اس سے عدلیہ کی آزادی کو تقویت ملے گی، اس کے کام میں زیادہ شفافیت آئے گی اور ساتھ ہی انصاف تک رسائی میں بھی بہتری آئے گی۔
سندھ بار کونسل کے نومنتخب وائس چیئرمین اظہر حسین عباسی نے ایک بیان میں جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے تحریر کردہ فیصلے کو سراہا۔
انہوں نے بیان میں مزید کہا گیا کہ دونوں ججز نے عدلیہ کی آزادی کے بارے میں اہم نکات اٹھائے ہیں، اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ عدالت عظمیٰ محض ون مین شو کے طور پر نہیں بلکہ ایک ادارے کے طور پر کام کرے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ گزشتہ 10 برسوں سے ملک بھر کی مختلف بار کونسلز اور ایسوسی ایشنز مطالبہ کر رہی ہیں کہ بینچز کی تشکیل اور از خود نوٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کیا جائے، اس کا انحصار چیف جسٹس کی انفرادی خواہش پر نہیں ہونا چاہیے۔
بیان میں کہا گیا کہ مقدمات سماعت کے لیے مقرر کرنے کے لیے بھی واضح معیار ہونا چاہیے اور یہ نہیں ہونا چاہیے کہ کچھ مقدمات برسوں تک سماعت کے لیے مقرر نہ ہوں جبکہ دیگر کو فوری طور پر بار بار سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔