اسلام آباد(سچ خبریں) ایوانِ بالا کے لیے 3 مارچ کو ہونے والے انتخابات میں منتخب ہونے والے سینیٹرز نے حلف اٹھا لیا، پریزائیڈنگ افسر سینیٹر مظفر حسین شاہ نے نومنتخب اراکینِ سینیٹ سے حلف لیا نو منتخب سینیٹرز کی حلف برداری کے بعد اجلاس ملتوی کردیا گیا اور اب نماز جمعہ کے بعد چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے ووٹنگ ہو گی۔
ایوان میں حلف برداری کے فوراً بعد پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی کی قیادت میں اپوزیشن اراکین کی جانب سے پولنگ بوتھ میں مبینہ طور پر خفیہ کیمرے نصب ہونے پر احتجاج کیا گیا۔
خیال رہے کہ چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے انتہائی اہم انتخابات خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوتے ہیں جس کے لیے ایوان میں پولنگ بوتھ بنایا گیا تھا۔
رضا ربانی کے اعتراض کے بعد اپوزیشن اراکین نے ایوان کے اندر شیم شیم کے نعرے لگائے اور کہا کہ کیمرے لگانا شکست کی نشانی ہے، ساتھ ہی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقات کی جائیں کہ ایوان کا کنٹرول کس کے پاس تھا۔
اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود پریزائنڈنگ افسر نے ایجنڈے سے ہٹ کر کوئی معاملہ موضوع بحث لانے سے انکار کردیا البتہ موجودہ پولنگ بوتھ کو ہٹا کر نیا پولنگ بوتھ لگانے کی ہدایت کی۔
نو منتخب سینیٹرز کی حلف برداری کے بعد اجلاس ملتوی کردیا گیا اور اب نماز جمعہ کے بعد چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے ووٹنگ ہو گی۔
خیال رہے کہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کےا نتخاب کے لیے اپوزیشن امیدواران یوسف رضا گیلانی اور عبدالغفور حیدری نے بالترتیب فاروق ایچ نائیک اور کامران مرتضیٰ کو اپنا پولنگ ایجنٹ مقرر کیا ہے جبکہ صادق سنجرانی کے لیے سینیٹر محسن عزیز پولنگ ایجنٹ کے فرائض انجام دیں گے۔
چیئرمین سینیٹ کے منتخب ہونے کے بعد پریزائیڈنگ افسر نئے چیئرمین سے حلف لیں گے جس کے بعد چیئرمین خود ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا انتخاب کروائیں گے اور نو منتخب ڈپٹی چیئرمین سے حلف بھی لیں گے۔
اس سے قبل ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم کی جانب سے مشترکہ طور پر چیئرمین سینیٹ کے لیے یوسف رضا گیلانی اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے مولانا عبدالغفور حیدری کو نامزد کیا ہے۔
دوسری جانب سے حکومت کی جانب سے چیئرمین کے عہدے کے لیے صادق سنجرانی اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے عہدے کے لیے مرزا محمد آفریدی کو میدان میں اتارا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مرزا محمد آفریدی مارچ 2018 کے سینیٹ انتخابات میں فاٹا سے آزاد حیثیت میں منتخب ہوئے تھے اور اس کے بعد مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کر کے ان کی جماعت میں شمولیت اختیار کرلی تھی لیکن اس کے بعد انہوں نے خاموشی سے اپنی وفاداری تبدیل کرلی۔
ڈان کے پاس دستیاب دستاویز کے مطابق مرزا محمد آفریدی نے 16 مارچ 2018 کو الیکشن کمیشن میں مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے کا اقرار نامہ جمع کروایا تھا۔
حالانکہ اپوزیشن جماعتوں کو چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا انتخاب جیتنے کے لیے سینیٹ میں واضح اکثریت حاصل ہے تاہم سیاسی پنڈتوں کا کہنا تھا کہ یہ بہت قریبی مقابلہ ہوگا اور پارٹی پالیسی سے کسی قسم کا اختلاف یا خفیہ رائے شماری میں ووٹ کے ضیاع کا نتیجہ اپ سیٹ کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل سال 2019 میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی تحریک عدم اعتماد سے بچنے میں کامیاب ہوئے تھے اور اپوزیشن کی اکثریت کے باوجود اس تحریک کے حق میں 50 ووٹ جبکہ مخالفت 45 ووٹس ڈالے گئے تھے۔
اس وقت 104 ارکین سینیٹ پر مشتمل ایوان میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے 53 ووٹس درکار تھے، حالانکہ تحریک عدم اعتماد پیش کرتے ہوئے اپوزیشن کو 64 اراکین کی حمایت حاصل تھی اس کے باوجود چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی تھی۔
ایوان بالا میں موجود حکومتی اتحاد میں پاکستان تحریک انصاف کے 27 اراکین، بلوچستان عوامی پارٹی کے 12 اراکین، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے 3 اراکین، آزاد اراکین 3 اور پی ایم ایل (ق) اور جی ڈی اے کا ایک ایک امیدوار ہے۔
دوسری جانب اپوزیشن کے پاس پیپلز پارٹی کے 21، مسلم لیگ (ن) کے 17 اراکین (اسحٰق ڈار کے سوا)، جمیعت علمائے اسلام (ف) کے 5 اراکین جبکہ اے این پی، بی این پی مینگل، پی کے میپ اور نیشنل پارٹی کے 2، 2 اراکین اور جماعت اسلامی کا ایک رکن ہے۔
یوں اس وقت ایوانِ بالا میں 99 اراکین موجود ہیں ان میں مسلم لیگ (ن) کے خودساختہ جلاوطنی اختیار کرنے والے رہنما اسحٰق ڈار شامل نہیں جنہوں نے اپنی نشست کا حلف بھی نہیں اٹھایا تھا۔
ان 99 اراکین میں 47 کا تعلق حکمران اتحاد جبکہ 52 کا اپوزیشن جماعتوں سے اور اگر جماعت اسلامی کے واحد سینیٹر گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں انتخاب کی طرح ووٹ ڈالنے نہیں آئے تو اس وقت بھی اپوزیشن کے پاس 4 ووٹوں کی برتری ہوگی۔