اسلام آباد:(سچ خبریں) جنرل قمر جاوید باجوہ کے گیریژن کے الوداعی دوروں کے سبب ان کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں قیاس آرائیوں کا سلسلہ تھم گیا ہے تاہم نئے آرمی چیف کے نام کے حوالے سے چہ مگوئیاں تاحال جاری ہیں۔ یہ سوال ہر کسی کی زباں پر ہے کہ اگلا آرمی چیف کون ہوگا لیکن جواب تاحال واضح نہیں ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف اور سربراہ مسلم لیگ (ن) نواز شریف کے درمیان گزشتہ چند روز کے دوران لندن میں ہونے والی ملاقاتیں اگلے آرمی چیف کے تقرر کے حوالے سےکلیدی حیثیت رکھتی ہیں لیکن پاکستان میں موجود مسلم لیگ (ن) کی سینیئر قیادت ان ملاقاتوں میں ہونے والی گفتگو کی تفصیلات سے لاعلمی کا اظہار کررہے ہیں یا جان بوجھ کر لب سیے ہوئے ہیں۔
وزیراعظم کو نواز شریف کے ساتھ طویل بات چیت کے بعد جمعے کو پاکستان واپس لوٹنا تھا لیکن انہوں نے اپنے شیڈول میں آخری لمحات میں تبدیلی کی اور اب اگلے ہفتے کسی روز ان کی پاکستان واپسی متوقع ہے۔
اگرچہ وزیراعظم کی وطن واپسی کے شیڈول میں تبدیلی کی باضابطہ طور پر وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ انہیں بخار ہو گیا ہے اور علالت کی وجہ سے انہوں نے سفر نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن بہت سے لوگوں کی جانب سے شیڈول میں تبدیلی کو نئے آرمی چیف کے تقرر کے حوالے سے مزید بات چیت سے جوڑا جارہا ہے۔
کابینہ کے ایک رکن نے مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنماؤں کا نام لیتے ہوئے ڈان کو بتایا کہ ’اگلے آرمی چیف کا تقرر ایک ایسا معاملہ ہے جس پر کسی کے ساتھ بات چیت نہیں کی گئی‘۔
انہوں نے کہا کہ ’کوئی اس بارے میں بات نہیں کر رہا ہے کیونکہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں، چیزیں لیک ہو جاتی ہیں اور قابو سے باہر ہو جاتی ہیں، لندن میں کیا بات چیت ہو رہی ہے اس کے بارے میں پوری کابینہ بے خبر ہے، اس حساس معاملے کے حوالے سے یہ ایک بہترین حکمت عملی ہے کیونکہ دوسری صورت میں تدبیریں الٹ ہو سکتی ہیں اور غلط فہمیاں پیدا ہونے کا سبب بن سکتی ہیں‘۔
ایک روز قبل وزیر دفاع خواجہ آصف نے نئے آرمی چیف کے نام کا فیصلہ لندن میں ہونے کی افواہوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس حوالے سے بات چیت ضرور ہوئی لیکن کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔
ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ مجھے 2013 اور 2016 میں اس عمل سے گزرنے کا تجربہ ہے، دونوں موقعوں پر یہ عمل 18 نومبر کے بعد پوری شدت کے ساتھ شروع ہوا، اسی طرح اس بار بھی 25 نومبر کے آس پاس قوم کو بالآخر حکومت کے حتمی فیصلے کا پتہ چل جائے گا۔
پارٹی اراکین کئی وجوہات کی بنا پر خاموش ہیں، کچھ اس بارے میں واقعی لاعلم ہیں کہ ان کی جماعت کے قائدین لندن میں کیا گفتگو کر رہے ہیں، جبکہ اس خفیہ گفتگو سے واقف کچھ پارٹی رہنما یہ سمجھتے ہیں کہ تفصیلات عیاں کردینا نادانی ہوگی۔
ڈان سے بات کرنے والے ایک شخص نے خیال ظاہر کیا کہ ہمیں ریٹائر ہونے والے آرمی چیف کا احترام کرنا چاہیے کیونکہ ایسے وقت میں نئی تعیناتی کے بارے میں بات چیت کرتے رہنا اچھا نہیں لگ رہا جب موجودہ آرمی چیف الوداعی ملاقاتیں کر رہے ہیں۔