لاہور(سچ خبریں) تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے سیالکوٹ واقعے میں سری لنکن فیکٹری مینجر پریانتھا دیاوادنا کو بچانے کی کوشش کرنے والے پروڈکشن مینجر ملک عدنان کو اُس کی بہادری اور اخلاقی جرأت پر تمغۂ شجاعت سے نوازنے کا اعلان کیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ پوری قوم کی جانب سے میں ملک عدنان کی بہادری اور اخلاقی جرات کو سلام پیش کرنا چاہتا ہوں کہ جنہوں نے سیالکوٹ میں اپنی جان خطرے میں ڈالتے ہوئے پریانتھا دیاوادنا کو پناہ دینے اور خود کو ڈھال بنا کر انہیں جنونی جتھے سے بچانے کی پوری کوشش کی۔
اس سے قبل اپنے ایک ٹویٹ میں وزیراعظم نے کہا تھا کہ سیالکوٹ میں پریانتھا دیاوادناکےگھناؤنےقتل پرسری لنکن عوام کےحوالےسےقوم میں پائےجانےوالےغم وغصےاور ندامت کےاظہارکیلئےمیں نےآج صدر گوتابایا راجاپاکساسے UAE میں بات کی، انہیں آگاہ کیاکہ سو سےزائدافرادگرفتار کئےجاچکےہیں اور یہ یقین دلایا کہ ان سے قانون کےتحت نہایت سختی سےنمٹاجایئگا۔
سیالکوٹ واقعے کے روز ٹویٹ کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ سیالکوٹ میں مشتعل گروہ کا ایک کارخانے پر گھناؤنا حملہ اور سری لنکن منیجر کا زندہ جلایا جانا پاکستان کیلئے ایک شرمناک دن ہے۔میں خود تحقیقات کی نگرانی کر رہا ہوں اور دوٹوک انداز میں واضح کر دوں کہ ذمہ داروں کو کڑی سزائیں دی جائیں گی۔گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔
دوسری جانب پولیس نے سیالکوٹ واقعے میں ملوث مزید 6 مرکزی ملزمان گرفتار کرلیا ‘ گرفتاریوں کی تعداد 124 ہوگئی ، پولیس ترجمان کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ سیالکوٹ میں فیکٹری کے سری لنکن مینیجر کے قتل میں ملوث ملزمان کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے دوران مزید 6 مرکزی ملزمان گرفتار کیا گیا ہے، جس کے لیے سائنٹفک انداز سے تفتیش کو آگے بڑھایا گیا ، سی سی ٹی سی فوٹیج اور موبائل کالز ڈیٹا سے گزشتہ 12 گھنٹوں میں پولیس نے مزید 6 مرکزی کرداروں کا تعین کرکے انہیں گرفتار کرلیا ، یہ ملزمان اپنے دوستوں اور رشتے داروں کے گھروں میں گرفتاری کے ڈر سے چھپے ہوئے تھے۔
قبل ازیں انسپکٹر جنرل پنجاب راؤ سردار نے کہا کہ سیالکوٹ واقعے میں پولیس کی کوتاہی ثابت نہیں ہوئی، 160 فوٹیجز کی روشنی میں گرفتاریاں کی جائیں گی، سیالکوٹ کے افسوسناک واقعے کا آغاز 10 بج کر2 منٹ پرہوا جب کہ 11 بجے تک پریا نتھاکمارا کی ہلاکت ہوچکی تھی ، پولیس11 بج کر 28 منٹ پر جائے وقوعہ پر پہنچی ، واقعے کی اطلاع ملنے پر مقامی پولیس نے فوری طورپر حکام کوآگاہ کیا ، ڈی پی او اور ایس اپی پیدل چل کر وہاں پہنچے، واقعے کے بعد راستے بلاک تھے اس میں پولیس کی کوتاہی ثابت نہیں ہوئی، اگر واقعے میں پولیس کی کوئی کوتاہی ہوئی تو اس کا جائزہ لیں گے ۔