قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کی ارکان قومی اسمبلی کو اسلحہ لائسنس جاری کرنے کی ہدایت

اسلام آباد: (سچ خبریں) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے ارکان قومی اسمبلی کو اسلحہ لائسنس جاری کرنے کی ہدایت کردی ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی راجہ خرم نواز کی زیر صدارت ہوا جس میں محکمہ داخلہ کے حکام نے اسلحہ لائسنس کے اجرا سے متعلق بریفنگ دی۔

ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ ہمارے بہت سے ارکان قومی اسمبلی قبائلی اضلاع سے تعلق رکھتے ہیں، انہیں حقیقی خطرات درپیش ہیں، ان کے لیے اسلحہ لائسنس دینے سے متعلق اقدامات کیے جائیں۔

چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ کم از کم ارکان قومی اسمبلی کو تو قانونی طور پر اسلحہ رکھنے کی اجازت دی جائے، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہاکہ ٹیکس دہندگان اور تاجر برادری ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، جو بندہ اربوں روپے میں ٹیکس دے رہا ہے اسے آپ اتنی بھی سہولت نہیں دے سکتے؟

خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ بہت سے ارکان قومی اسمبلی جن کا تعلق کراچی سے ہے ان کے بھی لائسنس ایکسپائر ہوگئے ہیں، چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ لائسنس کی تجدیدکے عمل میں بھی تاخیر ہورہی ہے۔

محکمہ داخلہ کے حکام نے کہا کہ اگر 5 سال بعد کوئی تجدید کے لیے آئے گا تو اسے ریونیو نہیں کیا جائے گا، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ آپ 2 سال بعد بھی رینیو نہیں کرتے، چیئرمین کمیٹی نے ہدایت دی کہ کم از کم ارکان قومی اسمبلی کو لائسنس جاری کیے جائیں۔

دریں اثنا، کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی ( سی ڈی اے) کے حکام نے کمیٹی کو اسلام آباد میں جاری ترقیاتی منصوبوں سے متعلق بریفنگ دی۔

چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ سہالہ پل کا منصوبہ 2019 سے جاری ہے، اگر یہ منصوبہ ایف ڈبلیو او کے پاس ہے تو انہیں کہیں کہ کام مکمل کریں۔

ڈائریکٹر جنرل( ڈی جی) سی ڈی اے نے کہاکہ ایف ڈبلیو او فنڈز کی بروقت فراہمی کی یقینی چاہتا ہے، کمیٹی کے رکن آغا رفیع اللہ نے کہاکہ ایف ڈبلیو او جیسے ادارے منصوبہ لے کر آگے سب لیٹ کردیتے ہیں۔

ڈاکٹر طارق فضل نے کہاکہ شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے، محکمہ داخلہ کے حکام نے بتایا کہ پچھلے سال ہم نے اس منصوبے کے لیے 40 کروڑ روپے کا فنڈ دیا، یہ لوگ کام نہیں کرسکے تو ہم نے یہ فنڈز واپس لے لیے۔

چیئرمین کمیٹی نے استفسار کیا کہ این ایل سی اور ایف ڈبلیو او بتائے کہ کام کرنا ہے یا نہیں؟ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ اصل مسئلہ کیا ہے ؟ سی ڈی اے سے پوچھیں۔

ڈی جی سی ڈی اے نے کہاکہ ہمیں فنڈز دیے گئے تھے لیکن پہلے رقبے سے متعلق کلیئرٹی نہیں تھی۔

چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے، اگر ایف ڈبلیو او کام نہیں کر رہا تو اسے فارغ کریں، 3 سال ہوگئے ہیں، آپ اسے مکمل نہیں کرسکے، ویسے تو چیئرمین سی ڈی اے نے پورے جہان کا ٹھیکہ لیا ہے ، داخلہ کے کام بھی وہ کر رہے ہوتے ہیں، اگلی میٹنگ میں ہمیں اس متعلق واضح جواب دیں۔

چیئرمین کمیٹی نے سی ڈی اے حکام کو پارلیمنٹ لاجز سے متعلق بریفنگ دینے کی ہدایت کی جس پر کمیٹی کے رکن جمشید دستی نے کہاکہ میرے لاجز میں چوہے دوڑ رہے ہوتے ہیں۔

سی ڈی اے حکام نے بتایا کہ ہم فنڈز کے منتظر ہیں ، فنڈز ملتے ہیں تو ہم ری ٹینڈر کی طرف جائیں گے، طارق فضل چوہدری نے کہاکہ ابھی یہ ایکنک میں بھی جائے گا ، یہ وقت ضائع کر رہے ہیں۔

چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ ایک ہفتے بعد ہم ایک اجلاس رکھیں گے ، سی ڈی اے سے ممبر پلاننگ سمیت دیگر متعلقہ حکام بھی شرکت یقینی بنائیں ، ہمیں بتائیں تو صحیح یہ کیا کام کر رہے ہیں۔

طارق فضل چوہدری نے کہاکہ ان کے ٹھیکیدار کے ساتھ جھگڑے ہی ختم نہیں ہورہے تو یہ کیسے اس منصوبے کو مکمل کریں گے، یہ 2008 کا ٹھیکہ تھا، ہم ٹھیکیدار کو بھی جانتے ہیں ، منصوبے میں تاخیر ہوئی جس کے باعث لاگت میں اصافہ ہوا۔

دریں اثنا، جناح گارڈن اور قومی اسمبلی کے درمیان جوائنٹ وینچر سے متعلق پیشرفت رپورٹ کمیٹی میں زیر بحث آئی۔

سی ڈی اے حکام نے بتایا کہ جناح گارڈن 665 پلاٹس قومی اسمبلی کے دے چکی ہے اور 400 کے قریب پلاٹس دینا باقی ہیں، چیئرمین کمیٹی نے استفسار کیا کہ یہ 665 پلاٹس کب دیے گئے اور کیا ان کا قبضہ بھی دے دیاگیا ہے ؟

سی ڈی اے حکام نے بتایا کہ 468 پلاٹس کی قیمت دے دی گئی ہے لیکن ان ابھی کا قبضہ نہیں دیا گیا، ہائیکورٹ میں اس سے متعلق 27 درخواستیں دائر کی گئیں، ہائیکورٹ نے قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کی ہدایات جاری کیں، ہائیکورٹ نے چیف کمشنر کو بلایا اور کہا کہ اس کا حل نکالیں۔

سی ڈی اے حکام نے بتایا کہ جناح گارڈن والوں کو بھی قبضہ نہیں ملا، جناح گارڈن کی کچھ زمین پر نیول انکلیو نے بھی قبضہ کیا ہوا تھا، تقریباً 440 کینال زمین نیول انکلیو سے لے کر جناح گارڈن کو دی ہے۔

چیئرمین کمیٹی نے استفسار کیا کہ جناح گارڈن اور قومی اسمبلی کے درمیان معاہدہ کب ہوا ؟ سی ڈی اے حکام نے بتایا کہ معاہدہ 2011 میں ہوا تھا، 11 کروڑ روپے قیمت ادا کی گئی لیکن اس وقت زمین نہیں دی گئی۔

طارق فضل چوہدری نے کہا کہ یہ سیدھی خرید و فروخت ہے، یہ کوئی مشترکہ منصوبہ نہیں ہے۔

سی ڈی اے حکام نے بتایا کہ اس سے متعلق ہائیکورٹ نے بھی کوئی ہدایت نہیں دی، چیف کمشنر کو ہائیکورٹ نے معاملے کو باریک بینی سے دیکھ کر حل کرنے کی ہدایت کی تھی ، ہم نے 18 فروری کو رپورٹ ہائیکورٹ میں جمع کروانی ہے، اس متعلق جو بھی آڈر ہے وہ چیف کمشنر کریں گے۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سارے کام چھوڑ کر ہماری قومی اسمبلی کی زمین سب سے پہلے واگزار کروائیں،اس کے پیچھے ایک مافیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے