اسلام آباد: (سچ خبریں) رواں مالی سال کے ابتدائی 8 ماہ کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاری پر منافع اور ڈیوڈنڈ کی بیرون ملک منتقلی میں 237 فیصد اضافہ ہوا ہے، اور یہ حجم اسی عرصے کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاری کی آمد کے برابر ہوگیا۔
میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے حالیہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرکزی بینک نے غیر ملکی سرمایہ کاری پر منافع اور ڈیوڈنڈ کی بیرون ممالک منتقلی میں نرمی کردی ہے، مالی سال 2023 کے دوران منافع کے کم اخراج پر سرمایہ کاروں کی جانب سے تنقید کی گئی تھی جبکہ ماہرین معیشت نے اس پالیسی کو سرمایہ کاری مخالف قرار دیا تھا۔
تاہم، منافع کی بیرون ملک منتقلی میں نرمی کے باوجود رواں مالی سال میں جولائی تا فروری کے دوران غیرملکی سرمایہ کاری کی آمد 17 فیصد گر گئی۔
یہ یقین کیا جاتا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) بھی غیرملکی سرمایہ کاری پر منافع اور ڈیوڈنڈ کے اخراج پر سخت کنٹرول کی پالیسی کو تنقید کی نگاہ سے دیکھتا ہے، گزشتہ اور موجودہ دونوں حکومتوں کی کوشش ہے کہ معاشی بحالی کے حوالے سے آئی ایم ایف کی جاری کردہ ہدایات اور تمام شرائط کو پورا کیا جائے۔
اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2024 کے ابتدائی 8 ماہ کے دوران 75 کروڑ 92 لاکھ ڈالر کا منافع باہر منتقل ہوا، جس کا حجم گزشتہ برس کی اسی مدت کے دوران 22 کروڑ 50 لاکھ ڈالر رہا تھا، یہ 53 کروڑ 42 لاکھ ڈالر یا 237.4 فیصد اضافہ ہے۔
زیرہ جائزہ مدت کے دوران منافع اور ڈیوڈنڈ کی بیرون ملک منتقلی 82 کروڑ ڈالر کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری سے معمولی کم رہی، منافع کی منتقلی صرف 6 کروڑ 10 لاکھ ڈالر کم رہی، اس کا مطلب ہے کہ ڈالرز کی آمد ملک میں اس کی طلب کو پورا کرنے میں مددگار نہیں، ڈالرز کا انتظام کرنے کے بعد مرکزی بینک کے پاس 8 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں، لیکن یہ قرضوں ہر سود کی ادائیگی اور تجارتی خسارے کا بوجھ برداشت کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔
اپریل میں یور بانڈز کی مدت پوری ہونے پر ادائیگی کے لیے ایک ارب ڈالر کی ضرورت ہے، جبکہ اس مدت کے دوران پاکستان کو آئی ایم ایف سے ایک ارب 10 کروڑ ڈالر کی قسط ملنے کی امید ہے، اس کا مطلب ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں نمایاں تبدیلی نہیں آئے گی۔
شعبہ جاتی اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ منافع مینوفیکچرنگ کے شعبے سے 20 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کا بیرون ملک بھیجا گیا، جو گزشتہ برس اسی عرصے کے دوران محض 2 کروڑ 80 لاکھ ڈالر رہا تھا۔
صرف چار شعبوں میں منافع کا بڑا اخراج نوٹ کیا گیا، جس میں مینوفیکچرنگ، ہول سیل اور تجار ت (19 کروڑ 73 لاکھ ڈالر)، بجلی اور گیس (11 کروڑ ڈالر) اور مالیات اور انشورنس (10 کروڑ 50 لاکھ) ڈالر شامل ہیں۔