اسلام آباد: (سچ خبریں) عالمی بینک نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ وفاقی اور صوبائی اخراجات کو آئینی مینڈیٹ کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہوئے قومی مالیاتی پالیسی اپنائے، مختلف وفاقی اور صوبائی ریونیو ایجنسیوں کو ایک ہی جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) جمع کرنے والی ایجنسی میں ضم کرے اور اگلے مالی سال کے بجٹ میں مؤثر طریقے سے زراعت، کیپٹل گین اور رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس لگائے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق عالمی بینک نے اپنی تازہ ترین پالیسی میں حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی سطحوں پر نئے مالیاتی ذمہ داری اور قرض کی حد بندی کے ایکٹ (ایف ڈی آر ایل اے) کا نفاذ کریں بشمول مالی سال 2025 کے بجٹ کے عمل کے ذریعے قومی وسط مدتی مالیاتی فریم ورک کو نافذ کیا جائے۔
اب اسے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے اگلے پروگرام کا حصہ بنائے جانے کی توقع ہے جس حوالے سے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اگلے ہفتے واشنگٹن میں ورلڈ بینک-آئی ایم ایف کی اسپرنگ میٹنگ کے موقع پر قرض دہندہ کے ساتھ تبادلہ خیال کریں گے۔
عالمی بینک نے بشمول ٹیکس کی تعمیل اور ان پٹ ٹیکس کریڈٹس کی فراہمی کے لیے شرح ہم آہنگی کی طرف بڑھنے اور جی ایس ٹی پورٹل کے رول آؤٹ کے ذریعے فیڈریشن اور فیڈریٹنگ یونٹس میں جی ایس ٹی ہم آہنگی پر ٹھوس پیشرفت کا مطالبہ کیا ہے۔
اس کے علاوہ عالمی بینک نے انتظامی پیچیدگی کو کم کرنے کے لیے جی ایس ٹی کی وصولی کی تمام ذمہ داریوں کو ایک ہی ایجنسی کے ساتھ یکجا کرنے کی تجویز بھی دی جو اس کے بعد آئینی دفعات کے مطابق محصولات کی تقسیم کر سکتی ہے۔
فی الحال فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی طرف سے زیادہ تر سامان اور سہولیات پر جی ایس ٹی اکٹھا کیا جاتا ہے جبکہ اسی طرح کے ریونیو بورڈ کچھ خدمات پر جی ایس ٹی جمع کرنے کے لیے صوبوں میں کام کر رہے ہیں، تاہم، بعض خدمات کی اوورلیپنگ نوعیت کے پیش نظر، اسٹیک ہولڈرز کو صوبوں کے درمیان جی ایس ٹی کی وصولی کی ایڈجسٹمنٹ کا سامنا ہے۔
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ عالمی بینک کم استعمال شدہ ذرائع سے محصولات کو متحرک کرنے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کرنا چاہتا ہے، خاص طور پر 2010 کے ساتویں قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کے نامکمل ایجنڈے سے متعلق جس میں شہری غیر منقولہ جائیداد ٹیکس، زرعی انکم ٹیکس، اور کیپٹل گین ٹیکس شامل ہیں۔
صوبوں کو زیادہ سے زیادہ وفاقی وسائل دینے کے ساتھ ساتھ، ان علاقوں کو مؤثر طریقے سے ٹیکس نیٹ میں لانے پر اتفاق کیا گیا ہے تاکہ 5 سالوں میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب کو 15 فیصد تک بڑھایا جا سکے، لیکن معاہدے (این ایف سی) کے مسودہ کو ٹھیک طرح سے تیار نہیں کیا گیا۔
این ایف سی نے تجویز کی تھی کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے ٹیکس وصولی کے نظام کو ہموار کریں تاکہ لیکیج کو کم کیا جا سکے اور ٹیکسوں کو بہتر بنانے کی کوششوں کے ذریعے اپنی آمدنی میں اضافہ کیا جا سکے اور سال 2014-2015 تک 15 فیصد ٹیکس سے جی ڈی پی کا تناسب حاصل کیا جا سکے، اس کے علاوہ صوبے زراعت اور رئیل اسٹیٹ کے شعبوں پر مؤثر طریقے سے ٹیکس لگانے کے لیے اقدامات شروع کریں گے، تاہم، یہ اگلے 15 سالوں تک خواب ہی رہا۔ْ
جہاں تک شہری غیر منقولہ پراپرٹی ٹیکس کا تعلق ہے، ورلڈ بینک نے ہم آہنگ ویلیویشن ٹیبلز (فی الحال رینٹل ویلیو پر مبنی) کے اطلاق کا مطالبہ کیا ہے تاکہ مشاہدہ شدہ متغیرات جیسے افراط زر، انشورنس ویلیویشن، اور سیلز ریکارڈز کی بنیاد پر سالانہ اپ ڈیٹ کیا جائے اور مالک اور کرایہ دار کے ریٹس کے درمیان برابری کی جائے۔
زرعی انکم ٹیکس کے لیے ورلڈ بینک نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ زمین کے رقبے کی تعریف کو یکساں بنائے، زمینوں کے حجم کی بنیاد پر چھوٹ پر نظر ثانی کرے اور فصلوں کے رقبے یا پیداوار کے تخمینے کی بنیاد پر مشترکہ کم سے کم شرحیں مقرر کرے۔
اس کے ساتھ ہی حکومت کو فی ہیکٹر کم سے کم شرحوں میں فرق کرنے کے لیے آبپاشی یا تعمیر شدہ عمارتوں کو بھی شامل کرنا چاہیے۔
کیپٹل گین ٹیکس کے بارے میں عالمی بینک نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بلڈرز، پراپرٹی ڈویلپرز، رئیل اسٹیٹ انویسٹمنٹ ٹرسٹ اور دیگر کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرے، کیپٹل گین اور ٹرانسفر سے متعلق ٹیکسوں کی اقسام مثلا کیپیٹل گین ٹیکس (سی جی ٹی)، کیپیٹل ویلیو ٹیکس (سی وی ٹی)، اسٹامپ ڈیوٹی، ودہولڈنگ ٹیکس وغیرہ کو آسان بنائے، سالوں پر مبنی تفریق کی شرحوں کو ختم کرے اور شرح کے ڈھانچے کو آسان بنائیں۔
مجموعی طور پر عالمی بینک نے ٹیکس بیس کو بڑھانے، ترقی کو بہتر بنانے اور تعمیل کو آسان بنانے کے لیے وسیع تر ریونیو اصلاحات کی تجویز دی ہے۔
پلاننگ کمیشن نے آئندہ قومی اقتصادی کونسل کے لیے پہلے ہی ایک قومی منصوبہ بندی کا فریم ورک تیار کر لیا ہے، جس کا مجموعی موضوع وفاقی بجٹ سے صوبائی منصوبوں کو ختم کرنا اور آئینی اسکیم کی روشنی میں وفاقی اور صوبائی ہم آہنگی کے ذریعے وسائل کی تعیناتی کو بہتر بنانا ہے جس میں ساتویں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ اور اٹھارویں آئینی ترمیم بھی شامل ہے۔
ایک اہلکار نے کہا کہ منصوبہ بندی کا فریم ورک ترقی اور نمو کے مشترکہ مقصد کے لیے مروجہ آئینی ذمہ داریوں اور کرداروں کے تناظر میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لیے ایک آپریشنل حکمت عملی پیش کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ متوازن ترقی اور علاقائی مساوات کا تصور صرف وفاقی حکومت کی نہیں بلکہ متعلقہ ترقیاتی پروگراموں کے ذریعے صوبوں کی بھی ذمہ داری ہے اور یہ 7ویں این ایف سی اور 18ویں ترمیم کا نچوڑ بھی ہے۔