اسلام آباد:(سچ خبریں) سپریم کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے کے نتیجے میں سیکڑوں کیسز دوبارہ کھلنے کے پیشِ نظر قومی احتساب بیورو (نیب) کے پاس کاغذی کارروائی کے ڈھیر کو سنبھالنے کے لیے عملہ ناکافی محسوس ہورہا ہے کیونکہ اس کے افسران کی ایک بڑی تعداد اس وقت دوسرے محکموں میں ڈیپوٹیشن پر ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ نیب کے 30 سے زائد افسران کو گزشتہ 8 سے 10 ماہ کے دوران ڈیپوٹیشن پر دیگر محکموں میں بھیجا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے سے چند روز قبل نیب کے پاس اپنے ڈپٹی چیئرمین اور پراسیکیوٹر جنرل کے استعفوں کے بعد پہلے ہی اعلیٰ عہدیداروں کی کمی ہوچکی تھی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب نے اب بظاہر ڈیپوٹیشن کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کے لیے مختلف دیگر محکموں اور سرکاری اداروں کے افسران کی خدمات طلب کرلی ہیں۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیب کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ نیب نے انٹیلی جنس ایجنسیوں مثلاً انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کے ساتھ ساتھ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی)، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے عملے کی خدمات طلب کرلی ہیں۔
عہدیدار کا کہنا ہے کہ نیب میں افسران کی ڈیپوٹیشن پر تعیناتی کے سبب فرانزک آڈٹ اور تحقیقات کے شعبوں میں عملے کے ساتھ ساتھ ٹیکس سے جڑے معاملات کے ماہرین کی بھی ضرورت ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب کے انٹیلی جنس اینڈ ویجیلینس سیل (آئی وی سی) کی سربراہی پہلے ایک حاضر سروس انٹیلی جنس افسر کرتا تھا، تاہم دیگر ایجنسیوں کے متعدد ڈیپوٹیشنسٹ جو نیب میں خدمات انجام دے رہے تھے، وہ پچھلی حکومت میں قانون سازی کے نتیجے میں نیب کے اختیارات محدود کیے جانے کے بعد اپنے اصل محکموں میں واپس بھیج دیے گئے تھے۔
یاد رہے کہ ترامیم کے ذریعے نیب کو 50 کروڑ روپے سے کم کے کرپشن کیسز کا نوٹس لینے سے روک دیا گیا تھا، تاہم سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے جاری کردہ آخری فیصلے کے تحت نیب نے اپنے کھوئے ہوئے اختیارات دوبارہ حاصل کرلیے جس کے بعد اب ایسا لگتا ہے کہ ادارہ وائٹ کالر جرائم میں ملوث بڑے کیسز لوگوں پر ہاتھ ڈالنے کے لیے کمر کس رہا ہے۔
اس حوالے سے مؤقف جاننے کے لیے ترجمان نیب سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہ ہوا۔
افرادی قوت میں کمی نیب کے موجودہ چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) نذیر احمد بٹ کے پالیسی فیصلے کا نتیجہ ہے، رواں برس جون میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سیکریٹری انعام اللہ خان کو بھیجے گئے خط میں انہوں نے تجربہ حاصل کرنے کے لیے اپنے افسران کو دیگر محکموں میں تعینات کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے ایک بار پھر سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے ایک ہزار 800 کے قریب ریفرنسز متعلقہ احتساب عدالتوں کو بھجوا دیے ہیں جن پر فیصلے زیر التوا تھے۔
سپریم کورٹ نے تقریباً ایک ہزار 800 بند مقدمات کو دوبارہ کھول دیا، تاہم ایسے مقدمات جو پہلے ہی طے ہو چکے یا نمٹائے جا چکے ہیں، وہ نیب کی جانب سے دوبارہ نہیں کھولے جائیں گے۔