اسلام آباد: (سچ خبریں) سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیض آباد دھرنا کمیشن رپورٹ ٹی او آر کے برخلاف قراردے دی۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس میں گزشتہ سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا، جس میں کہا گیا ہے کہ کمیشن نے مینڈیٹ سے باہر جاکر اصرار کیا کہ ایک مخصوص شخص نے کچھ غلط نہیں کیا، کمیشن نے محض اس شخص کی کاغذ پر لکھی تردید پر انحصار کیا، کمیشن نے سب فریقین سے مساوی سلوک نہیں کیا، کمیشن نے ایک فریق سے بیان حلفی لیا اور دوسرے سے سادہ بیان پر ہی اکتفا کیا، کمیشن نے دونوں فریقین کو ایک دوسرے پر جرح کا موقع بھی نہیں دیا۔
سپریم کورٹ کا تحریری حکمنامہ میں کہنا ہے کہ کمیشن رپورٹ میں صوبائیت کی جھلک مایوس کن ہے، رپورٹ میں محض جملہ بازی اور اصلاحات ہیں ٹھوس مواد نہیں، اٹارنی جنرل نے بھی کہا رپورٹ ٹھوس مواد سے خالی ہے، مذہبی جماعت کے کسی فریق کا بیان ہی نہیں لیا گیا، یہ رپورٹ پبلک کی جائے گی یا نہیں، اس حوالے سے اٹارنی جنرل دو ہفتے میں وفاقی حکومت کا جواب جمع کروائیں۔
بتایا جارہا ہے کہ دوران سماعت قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کیس کمیشن کی رپورٹ کو مضحکہ خیز قرار دیا اور استفسار کیا کہ ’کمیشن کے باقی دو اراکین کہاں ہیں؟ رپورٹ میں کمیشن کا ان پٹ کہاں ہے؟
اس رپورٹ میں کمیٹی کی کوئی فائنڈنگ نظر نہیں آئی، انکوائری کمیشن نے اگر کوئی فائنڈنگ نہیں دی تو وقت ضائع کیوں کیا؟ یہ کس قسم کا انکوائری کمیشن تھا؟ رپورٹ لکھنے والوں کی اہلیت کیا تھی؟ انگریزی محاورے استعمال کرنے ہیں تو صحیح تو استعمال کرلیں، انکوائری کمیشن نے لگتا ہے اپنا کام کسی اور کے سپرد کر دیا تھا، پاکستان کے نقصان کی کسی کو پرواہ ہی نہیں، آگ لگاؤ اور مارو یہ حق بن گیا ہے، احتجاج کرنا جمہوری حق ہے لیکن ایک شخص کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے، فیض آباد دھرنا فیصلے پر عمل درآمد کر لیا جاتا تو 9 مئی کے واقعات نہ ہوتے‘۔