اسلام آباد:(سچ خبریں) جنرل ندیم رضا نے ملٹری سروس سے ریٹائرمنٹ کے بعد چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے عہدے سے سبکدوش ہو گئے۔
جوائنٹ اسٹاف ہیڈ کوارٹرز میں الوداعی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جنرل ندیم رضا نے کہا کہ ملک کا دفاع ناقابل تسخیر ہے اور بہادر سپاہی اسے مزید مضبوط بنانے سے گریز نہیں کریں گے۔
41 سال تک فوج میں خدمات انجام دینے والے جنرل ندیم نے کہا کہ میں نے اپنی ذمہ داریوں کو ایمانداری، انصاف اور وقار کے ساتھ اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق نبھایا۔
تقریب میں تینوں افواج کے سینئر افسران اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے سابق چیئرمینوں نے شرکت کی جس کے ساتھ ہی دو فور اسٹار جنرلز کی ریٹائرمنٹ سے فوج میں تبدیلی کا آغاز ہوا ہے۔
صدر مملکت عارف علوی نے جمعرات کو وزیر اعظم شہباز شریف کی ایڈوائس پر جنرل ساحر شمشاد مرزا کو نیا چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف اور جنرل عاصم منیر کو نیا چیف آف آرمی اسٹاف تعینات کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا تھا۔
حکومت نے جنرل ندیم رضا اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا۔
گزٹ آف پاکستان میں حکومت کی جانب شائع نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ پاکستان آرمی ایکت رولز 1954 کے رول 12 کے مطابق وزیر اعظم نے پی اے-19617 جنرل قمر جاوید باجوہ این آئی(ایم) کی 29 نومبر 2022 سے آرمی سروس سے ریٹائرمنٹ کی منظوری دے دی ہے، اسی طرح کا نوٹیفکیشن جنرل ندیم رضا کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے بھی شائع کیا گیا۔
نئے فوجی سربراہان جنرل ساحر شمشاد مرزا اور جنرل منیر دونوں تقرری کے وقت سنیارٹی لسٹ میں سرفہرست تھے، جس کا مطلب ہے کہ اس مرتبہ آرمی چیف کے تقرر کی مشق میں کسی اور جنرل کی جگہ نہیں لی گئی، نئے کمانڈر کے عہدہ سنبھالنے سے پہلے سپرسیڈ افسران روایتی طور پر ریٹائر ہو جاتے ہیں۔
اس کے باوجود یہ افواہ زیر گردش ہیں کہ فور اسٹار جنرل کے عہدے پر ترقی دینے کے اہل تصور کیے جانے والے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل اظہر عباس نے استعفیٰ دے دیا ہے، وہ اگلے سال اپریل میں ریٹائر ہونے والے ہیں، یہ بھی قیاس کیا جا رہا ہے کہ پی ایم اے 76 سے تعلق رکھنے والے دیگر دو جرنیل بھی ترقی نہ دیے جانے پر ریٹائرمنٹ پر غور کررہے ہیں اور آنے والے دنوں میں عہدہ چھوڑ سکتے ہیں۔
تاہم سی جی ایس کے استعفیٰ کی باضابطہ تصدیق نہیں ہو سکی، ایک فوجی افسر نے کہا کہ 28 نومبر کو صورتحال واضح ہو جائے گی۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چونکہ ان میں سے کسی بھی افسر کو برطرف نہیں کیا گیا تھا، اس لیے لوگ ان کے استعفوں کی تشریح مختلف انداز میں کریں گے۔