چمن: (سچ خبریں) بلوچستان کے ضلع چمن میں مظاہرین دھرنے میں شریک اپنے رہنماؤں کی گرفتاری پر مشتعل ہوگئے، انہوں نے سرکاری عمارتوں اور تنصیبات پر حملے شروع کر دیے اور ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا، جبکہ جھڑپوں میں 17 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت کم از کم 40 افراد زخمی ہوگئے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بدامنی پورے سرحدی شہر میں پھیل گئی، مظاہرین نے ریلیاں نکالیں اور احتجاج کیا جبکہ شہر کو بند کر دیا۔
صرف درست پاسپورٹ اور ویزہ رکھنے والوں کو ہی چمن سرحد پار کرنے کی اجازت دینے کے حکومتی فیصلے کے خلاف چمن میں ایک ماہ سے جاری دھرنے میں شریک رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا تھا، اس سے قبل پاکستانی اور افغان اپنے شناختی کارڈ دکھا کر سرحد پار کرتے تھے۔
حکام نے بتایا کہ جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب مظاہرین نے کوئٹہ کو قندھار سے ملانے والی قومی شاہراہ سمیت اہم سڑکوں کو بلاک کرنے کی کوشش کی اور رکاوٹیں لگا کر ٹریفک میں خلل ڈالا۔
تاہم مقامی انتظامیہ نے پولیس، لیویز اور فرنٹیئر کور کے اہلکاروں سمیت سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا اور رکاوٹیں ہٹا کر ٹریفک کو بحال کیا۔
مارچ کے دوران مظاہرین نے ڈپٹی کمشنر آفس کمپلیکس کے سامنے احتجاج کیا اور عمارت پر پتھراؤ کیا جبکہ مال روڈ اور دیگر کاروباری مراکز پر تمام دکانیں زبردستی بند کروا دیں، اس کے علاوہ انہوں نے متعدد دکانداروں کو لاٹھیوں سے بھی مارا۔
مقامی حکام کے مطابق مظاہرین نے مواصلاتی نظام کو بھی درہم برہم کر دیا اور فرنٹیئر کور (ایف سی) فورٹ کو بجلی کی فراہمی منقطع کرنے کی کوشش کی۔
مظاہرین نے چمن میں ایف سی ہیڈ کوارٹر پر پتھراؤ کیا، جس سے علاقے میں تعینات سیکیورٹی اہلکاروں نے خالی گولیاں برسائیں اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔
ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند کا کہنا تھا کہ فورسز اور مقامی انتظامیہ نے مظاہرین کو منتشر کرنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن جب انہوں نے فورسز پر حملہ کرنا شروع کیا تو جواب دیا گیا اور ربر کی گولیوں کو استعمال کیا۔
انہوں نے تصدیق کی کہ جھڑپوں میں کم از کم 17 سیکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے جبکہ ایک پولیس اہلکار کے ہاتھ میں گولی لگی، مزید بتایا کہ کچھ مظاہرین بھی زخمی ہوئے۔
دیگر ذرائع نے بتایا کہ ربر کی گولیوں سے 20 مظاہرین زخمی ہوئے، جنہیں ڈسٹرکٹ ہسپتال چمن منتقل کر دیا گیا، جبکہ 6 زخمیوں کو علاج کے لیے کوئٹہ منتقل کیا گیا ہے۔
ڈسٹرکٹ ہسپتال کے ڈاکٹر رشید نے بتایا کہ ہسپتال میں 13 زخمیوں کو لایا گیا ہے جنہیں ربر کی گولیوں لگنے سمیت دیگر زخم آئے۔
سرکاری ذرائع نے بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سیکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کرنے اور سرکاری عمارتوں پر حملہ کرنے کے الزام میں چار درجن سے زائد مظاہرین کو گرفتار کیا ہے۔
سیکیورٹی حکام نے ڈان کو بتایا کہ چمن کے مختلف علاقوں سے 56 افراد کو حراست میں لے لیا گیا، مزید کہنا تھا کہ سرحدی شہر میں مزید سیکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کر دیا گیا۔
مقامی صحافی اصغر اچکزئی نے ڈان کو چمن سے بذریعہ فون بتایا کہ جھڑپوں کے دوران شہر میدان جنگ کا منظر پیش کر رہا تھا، جبکہ گزشتہ دو دنوں سے انٹرنیٹ سروسز متاثر ہونے کے سبب رپورٹنگ میں مشکلات درپیش ہیں۔
تاہم رات میں تک قبائلی عمائدین اور سیاسی رہنماؤں نے مفتی قاسم اور محمد حسن کی سربراہی میں چمن کے ڈپٹی کمشنر اطہر عباس راجا سے ثالثی کی جس کے بعد مظاہرین منتشر ہو گئے اور حالات معمول پر آ گئے۔
تاہم ایک احتجاجی رہنما مولوی عبدالمنان نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہمارے 7 رہنماؤں کی رہائی تک مظاہرے جاری رہیں گے، جنہیں لیویز نے گرفتار کر کے کوئٹہ جیل منتقل کر دیا تھا، انہوں نے مطالبہ کیا کہ گزشتہ دو دنوں کے دوران گرفتار تمام افراد کو فوری رہا کیا جائے۔
دریں اثنا، بلوچستان حکومت نے کئی ماہ سے جاری احتجاج کے درمیان چمن میں غیر یقینی صورتحال کے باعث قلعہ سیف اللہ ضلع میں پاکستان-افغان سرحد پر بدینی سرحدی کراسنگ کو افغانستان کے ساتھ تجارت کے لیے کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جاری کردہ سرکاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ حالیہ مہینوں میں، بدینی کراسنگ کو مستقل بنیادوں پر غیر قانونی غیر ملکی شہریوں کی وطن واپسی کے لیے استعمال کیا گیا تھا، تاہم کراسنگ کو تجارتی مقاصد کے لیے مکمل طور پر استعمال نہیں کیا گیا۔