اسلام آباد:(سچ خبریں) انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کا رجحان جاری ہے، ڈالر مزید 18 روپے 98 پیسے مہنگا ہو کر 285 روپے 9 پیسے کی بُلند ترین سطح پر پہنچ گیا، جس کی وجہ ماہرین عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدے میں تاخیر کو قرار دے رہے ہیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق انٹربینک مارکیٹ میں روپے کے مقابلے میں ڈالر 18 روپے 98 پیسے یا 6.66 فیصد اضافے کے بعد 285 روپے 9 پیسے پر بند ہوا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق گزشتہ روز انٹربینک مارکیٹ میں روپے کے مقابلے میں ڈالر 4 روپے 60 پیسے مہنگا ہو کر 266 روپے 11 پیسے کی سطح پر پہنچ گیا تھا۔
ٹاپ لائن سیکورٹیز کے چیف ایگزیکٹو محمد سہیل نے بتایا کہ عالمی مالیاتی ادارے سے فنڈنگ ملنے میں تاخیر کی وجہ سے کرنسی مارکیٹ میں بےیقینی کی صورتحال جنم لے رہی ہے۔
ٹریس مارک کی سربراہ کومل منصور کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے نئے معاہدے سے قبل روپے کی قدر میں 20 فیصد کمی کی ڈیمانڈ کی تھی جو پوری کردی گئی ہے اور امید ہے کہ ڈالر 278 سے 280 روپے کے درمیان رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ ڈالر اس سے اوپر جائے گا تو اسٹیٹ بینک مداخلت کے لیے آئے گا، اس لیے حالیہ اضافہ ہوا ہے، توقع ہے کہ مارکیٹ 280 روپے کے نیچے سیٹ ہوجائے گی اور آگے مزید روپے کی قدر کم نہیں ہوگی۔
سیکریٹری جنرل ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان ظفر پراچا نے کہا کہ آئی ایم ایف نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ موجودہ افغان ٹریڈ ریٹ پر ڈالر کی تجارت کرے، دوسرے الفاظ میں انہوں نے پاکستان سے یہ کہا ہے کہ انٹربینک ریٹ یا اوپن مارکیٹ ریٹ کے بجائے ہمارا اصل ریٹ گرے مارکیٹ ریٹ کے مطابق ہونا چاہیے، وہی اصل ریٹ ہے کیونکہ اس وقت ڈالر کی دستیابی اور تجارت صرف گرے مارکیٹ میں ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے زرمبادلہ پر پابندیاں لگائیں جس کے نتیجے میں تجارت گرے مارکیٹ میں منتقل ہو گئی، حکومت نے ایکسچینج کمپنیوں پر ڈالر کی خرید و فروخت پر بہت سی پابندیاں عائد کردی ہیں جس کی وجہ سے ڈالر آتا ہے نہ جاتا ہے۔
ظفر پراچا نے مزید کہا کہ گرے مارکیٹ پر حکومت کے کریک ڈاؤن کے باوجود ایسا ہو رہا ہے، ہمیں اپنی پالیسیاں ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، کریک ڈاؤن کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ’انجانے میں ہم نے اپنی پالیسیوں کی وجہ سے گرے مارکیٹ کو بہت سپورٹ کیا ہے اور وہ بہت پھل پھول گئی ہے، آئی ایم ایف بھی اسے دیکھ رہا ہے اس لیے انہوں نے کہا ہے کہ اپنا روپے اور ڈالر کا ریٹ اس مقام تک لے آئیں۔
گزشتہ روز کرنسی ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچا نے بتایا تھا کہ پاکستانی روپیہ اور معیشت دوبارہ دباؤ کا شکار ہے، اس کی بنیادی وجہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کا تعطل اور معاہدے میں تاخیر ہونا اور نئی شرائط کا سامنے آنا ہے، اس کی وجہ سے انٹربینک میں ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوا۔
میٹس گلوبل کے ڈائریکٹر سعد بن نصیر نے کہا تھا کہ فروری میں مارکیٹ میں سکون تھا اور روپے کی قدر میں 2.7 فیصد اضافہ ہوا تھا، آئی ایم ایف کے ساتھ جلد معاہدہ ہونے کی توقع کی جارہی تھی لیکن معاہدے میں تاخیر اور افغانستان کی اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے 285 سے 290 روپے کے درمیان ہونے کی وجہ سے روپے کی قدر میں کمی ہوئی۔
پاکستان اس وقت شدید معاشی بحران کا شکار ہے، اس کے ذخائر صرف 3 ارب ڈالر کے قریب ہیں، جو صرف تین ہفتوں کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں، ایسی صورت حال میں ملک کو فوری طور پر آئی ایم ایف کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کرنے کی ضرورت ہے، جس سے نہ صرف ایک ارب 20 کروڑ ڈالر ملیں گے بلکہ دوست ممالک اور دیگر کثیر الجہتی قرض دہندگان کی جانب سے فنڈز ملنے کی راہ بھی ہموار ہوگی۔