?️
اسلام آباد: (سچ خبریں) سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف کے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جس میں کیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا یکم مارچ فیصلہ آئین سے متصادم ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق مخصوص نشستوں سے متعلق تفصیلی فیصلہ 70 صفحات پر مشتمل ہے، تفصیلی فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے۔
سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی فیصلہ اردو زبان میں بھی جاری کرنے کا حکم دے دیا، احکامات کے مطابق اردو ترجمے کو کیس ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے اور ویب سائٹ پر بھی اپ لوڈ کیا جائے۔
تفصیلی فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کوکالعدم قرار دیتی ہے، الیکشن میں سب سے بڑا اسٹیک عوام کا ہوتا ہے، انتخابی تنازع بنیادی طور پر دیگر سول تنازعات سے مختلف ہوتا ہے، یہ سمجھنے کی بہت کوشش کی کہ سیاسی جماعتوں کے نظام پر مبنی پارلیمانی جمہوریت میں اتنے آزاد امیدوار کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟
فیصلے کے مطابق اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا، پی ٹی آئی کا یہ دعویٰ تھا کہ آزاد امیدوار بھی پی ٹی آئی کے امیدوار تھے، پی ٹی آئی کے مطابق ووٹرز نے ان کے پی ٹی آئی امیدوار ہونے کی وجہ سے انہیں ووٹ دیا۔
تحریری فیصلے میں بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن کے یکم مارچ کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، الیکشن کمیشن کا یکم مارچ کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے۔
سپریم نے الیکشن کمیشن کے رویے پر بھی حیرانی کا اظہار کر دیا، عدالت نے کہا کہ الیکشن کمیشن بنیادی فریق مخالف کے طور پر کیس لڑتا رہا، الیکشن کمیشن کا بنیادی کام صاف شفاف انتخابات کرانا ہے، الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی عمل میں نمایاں غلطیوں کے باعث عدالتی مداخلت ضروری ہو جاتی ہے۔
اس میں بتایا گیا کہ رول 94 آئین اور الیکشن ایکٹ 2017 سے متصادم ہے، رول 94 مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے طریقہ کار سے متعلق ہے، انتخابی رولز الیکشن ایکٹ کے مطابق ہی بنائے جا سکتے ہیں، انتخابی رولز میں ایسی چیز شامل نہیں کی جا سکتی جو الیکشن ایکٹ میں موجود نہ ہو، رول 94 کی وضاحت میں لکھا گیا ہے کہ سیاسی جماعت اسے تصور کیا جائے گا جس کے پاس انتخابی نشان ہو، رول 94 کی وضاحت آئین کے آرٹیکل 51(6) اور الیکشن ایکٹ کی شق 106 سے متصادم ہے، انتخابی نشان نہ ہونے پر مخصوص نشستیں نہ دیا جانا الیکشن کمیشن کی طرف سے اضافی سزا ہے۔
اس کے مطابق سپریم کورٹ بلے کے نشان والے کیس میں پارٹی کے آئینی حقوق واضح کرتی تو کنفیوژن پیدا ہی نہ ہوتی، الیکشن کمیشن نے بھی اپنے حکم نامہ میں پی ٹی آئی کے آئینی حقوق واضح نہیں کیے، عدالت اور الیکشن کمیشن کو مدنظر رکھنا چاہیے تھا کہ انتخابی شیڈیول جاری ہو چکا ہے، واضح قانون کے بغیر کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی، آئین میں دیے گئے حقوق کو کم کرنے یا قدغن لگانے والے قوانین کا جائزہ تنگ نظری سے ہی لیا جا سکتا ہے، جمہوریت میں انفرادی یا اجتماعی حقوق میں کم سے کم مداخلت یقینی بنانی چاہیے، انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے کی سزا انتخابی نشان واپس لینے سے زیادہ کچھ نہیں، انتخابی نشان واپس لیے جانے کا مطلب یہ نہیں کہ سیاسی جماعت کے آئینی حقوق ختم ہو گئے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن ملک میں جمہوری عمل کا ضامن اور حکومت کا چوتھا ستون ہے، الیکشن کمیشن فروری 2024 میں اپنا یہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہا۔
فیصلے میں بتایا گیا کہ عوام کی خواہش اور جمہوریت کے لیے شفاف انتخابات ضروری ہیں، تحریک انصاف قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حقدار ہے، الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدواروں کو نوٹیفائی کرے، عوام کا ووٹ جمہوری گورننس کا اہم جز ہے، آئین عوام کو اپنا جمہوری راستہ بنانے کا اختیار دیتا ہے۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو ریلیف دینے پر وضاحت بھی کر دی، انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی کی کیس میں فریق بننے کی درخواست ہمارے سامنے موجود تھی، عمومی طور پر فریق بننے کی درخواست پر پہلے فیصلہ کیا جاتا ہے۔
تفصیلی فیصلے میں 8 ججز نے 2 ججز کے اختلافی نوٹ پر تحفظات کا اظہار کر دیا، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے 12 جولائی کے اکثریتی فیصلے کو آئین سے متصادم قرار دیا تھا۔
فیصلے مین کہا گیا کہ بھاری دل سے بتاتے ہیں دو ساتھی ججز امین الدین اور جسٹس نعیم افغان نے ہمارے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا، جس انداز میں دو ججز نے اکثریتی فیصلے پر اختلاف کا اظہار کیا وہ مناسب نہیں۔
فیصلے کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ 2 ججز اپنی حدود سے تجاوز کر گئے، انہوں نے 80 ریٹرن امیدواروں کو انتبا دہا اور الیکشن کمیشن کو اکثریتی حکم کی تعمیل نہ کرنے کا حکم دیا جو کہ اس عدالت کے 13 رکنی فل کورٹ بینچ کا فیصلہ تھا، ایسے مشاہدات انصاف کے اعلیٰ ترین ادارے کی سالمیت کو نقصان پہنچاتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ یہ عمل عدالتی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش ہے۔
70 صفحات کے تفصیلی فیصلے میں 8 ججز نے سپریم کورٹ کے دو ججوں کی اپنے 12 جولائی کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دینے کے ریمارکس کو سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے اور کہا ہے کہ جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر افغان کا عمل سپریم کورٹ کے ججز کے منصب کے منافی ہے۔
یاد رہے کہ 12 جولائی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دے دیا تھا۔
یاد رہے کہ 9 جولائی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔


مشہور خبریں۔
بھارتی حکومت نے فورسز کو نہتے کشمیریوں پر مظالم کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے، کل جماعتی حریت کانفرنس
?️ 7 دسمبر 2023سرینگر: (سچ خبریں) بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں وکشمیر میں
دسمبر
شہر مزار شریف میں دھماکہ
?️ 24 اگست 2022سچ خبریں: صوبہ بلخ کے صدر مقام مزار شریف شہر کے
اگست
وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں شریک ہونے ایم این ایز کی تعریف کیوں کی
?️ 18 نومبر 2021اسلام آباد (سچ خبریں) وزیراعظم عمران خان نے بیماری کے باوجود پارلیمنٹ
نومبر
فلسطینی قیدیوں کی رہائی؛ صہیونی رہنماؤں کے درمیان اختلاف کا نیا موضوع
?️ 3 جولائی 2024سچ خبریں: تل ابیب کابینہ کی داخلی سلامتی کے وزیر اٹمر بن
جولائی
امریکی خفیہ ایجنسی نے بائیڈن کے بیٹے کو بچانے کے لیے کیا کیا؟
?️ 16 جولائی 2023سچ خبریں: 2024 کی امریکی صدارتی امیدوار نے خفیہ سروس پر الزام
جولائی
آصف علی زرداری نے سپیکر کو پی ٹی آئی اراکین کے استعفوں کی منظوری سے روک دیا ہے۔
?️ 20 جولائی 2022اسلام آباد: (سچ خبریں) ملک میں بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال کے باعث تحریک
جولائی
پاکستان کا اقوام متحدہ سے شام میں سیاسی منتقلی کیلئے پابندیاں نرم کرنے کا مطالبہ
?️ 24 اکتوبر 2025 نیویارک: (سچ خبریں) پاکستان نے اقوام متحدہ سے شام کی سیاسی
اکتوبر
پی آئی اے نے دو بین الاقوامی روٹس کے کرایوں میں نمایاں کمی کردی
?️ 2 مارچ 2025کراچی: (سچ خبریں) پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن ( پی آئی اے ) نے
مارچ