اسلام آباد:(سچ خبریں) پیر کی صبح کا آغاز کینیا میں ارشد شریف کے قتل سے متعلق ہوش اڑا دینے والی خبر سے ہوا، اس دن سے لے کر آج تک جوابات کے منتظر سوالات کی فہرست طویل ہوتی جارہی ہے۔
ہمارے یہاں ایک روایت چلی آرہی ہے کہ ایسے ہائی پروفائل قتل پر ہونے والی سیاست مقتول کو پیچھے دھکیل کر خود آگے نکل جاتی ہے اور پھر سیاسی و ذاتی مفادات حاصل کرنے کی دوڑ شروع ہوجاتی ہے، سو اس بار بھی وہی سب کچھ ہوا۔
ارشد شریف کے قتل پر بھی قیاس آرائیاں جاری ہیں کیونکہ ابھی قتل کے اصل محرکات و وجوہات کا سامنے آنا باقی ہے لیکن کس پر شک کیا جا رہا تھا اور زیرِ لب کن کا تذکرہ تھا یہ لکھتے ہوئے میرے تو شاید پَر جلتے لیکن بھلا ہو ان کا کہ وہ خود آئے اور بتایا کہ ہم نہیں ہیں، یوں لکھنے والوں کے لیے کچھ آسانی ہوئی۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ڈی جی آئی ایس پی آر کی ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ غیر معمولی پریس کانفرنس یقینی طور پر غیر معمولی حالات کی نوید سنا رہی ہے۔
پریس کانفرنس میں ہونے والی گفتگو اگر ارشد شریف کے قتل پر ہونے والی قیاس آرائیوں تک محدود رہتی تو مجھے صرف اتنا کہنا ہوتا کہ ہمارے ملک کی فوج ہے، ہمارے ادارے ہیں، ہمارا فخر ہیں اور ہماری بقا کی ضمانت ہیں، ہمیں ان پر اعتبار کرنا سیکھنا ہوگا۔ ماضی میں کی گئی غلطیوں کا اعتراف کرکے جب کوئی آگے بڑھتا ہے تو اسے راستہ دینا چاہیے اور اصلاح کا موقع بھی لیکن اگر غلطیوں کو تسلیم کرکے آگے غلطیاں نہ کرنے کی یقین دہانیاں کروانے کے ساتھ ساتھ پھر غلطیاں دہرائی جائیں تو میں بہت احترام اور احتیاط کے ساتھ عرض کروں گی کہ پریس کانفرنس نہ ہوتی تو بہتر ہوتا۔
بہرحال اب واپس آتے ہیں پریس کانفرنس میں ارشد شریف کے قتل پر ہونے والی گفتگو پر۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ قیاس آرائیوں اور الزامات کا جواب دلیل ہی نہیں ثبوتوں اور ٹھوس شواہد کے ساتھ دیا جاتا نہ کہ اندیشوں اور مفروضوں پر۔ بے شک تھوڑا اور وقت لیتے لیکن ثبوت ایسے دیتے کہ ہم انگلیاں منہ میں دبا لیتے اور ہمارے پاس سوائے یقین کرنے کے کوئی اور راستہ نہیں بچتا۔
دوسری طرف فیصل واڈا نے بھی دبنگ لیکن فلاپ انٹری کی، جس پر صرف اتنا کہنا چاہوں گی کہ اگلی بار اسکرپٹ کسی پروفیشنل لکھاری سے لکھوائیں اور اس کی براڈکاسٹ پلاننگ کے لیے بھی کسی تجربہ کار ٹیم سے رابطہ کریں، مارکیٹ میں بے روزگاروں کی کمی نہیں۔ ساتھ ساتھ پیٹ کے ہلکوں کو پلان ہرگز پہلے سے نہ بتائیں اور کم از کم پی ٹی وی کے کیمروں کو تو کان و کان خبر نہ ہونے دیں۔
ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس کے حوالے سے ایک آخری بات یہ کہ جب سیاسی سوال و جواب کا سلسلہ چل ہی نکلا تو صحافی تو صحافی ہے اسے تو خبر نکالنی ہے، لہٰذا پوچھا گیا کہ لانگ مارچ سے متعلق آرمی چیف نے بیان دیا ہے کہ کسی جتھے کو ملک میں انتشار پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، تو کیا اس سے مراد پی ٹی آئی کا لانگ مارچ تھا؟
وضاحت کی گئی کہ آرمی چیف نے جتھے کا لفظ استعمال نہیں کیا، کسی گروپ کی بات کی تھی اور ساتھ ہی واضح کیا کہ احتجاج جمہوری و آئینی حق ہے جو چاہے استعمال کرے۔ اس سوال کا اور کوئی جواب تو شاید بنتا بھی نہ۔
خان صاحب کے لانگ مارچ کے وقت کی بات کروں تو اسی تحریر میں جواب ہے کہ مقتول کو پیچھے دھکیل کر سیاست آگے نکل جاتی ہے۔ 2 ماہ سے حتمی تاریخ کے اعلان کا متلاشی لانگ مارچ ابھی جمعے کے دن کا انتظار کر رہا تھا کہ اب تاریخ کا اعلان ہوگا پھر کچھ تیاری کا موقع ملے گا لیکن خان صاحب نے بھی لوہا گرم دیکھ کر چوٹ لگائی اور ارشد شریف کے قتل پر عوام کے جذبات کو ٹھنڈا نہ پڑنے دینے کے لیے جمعے کو ہی لانگ مارچ کا اعلان کردیا۔
ارشد شریف کے قتل پر بھپرے عوام اور ان کے بھڑکے ہوئے جذبات یقیناً اس لانگ مارچ کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں، ہاں البتہ فیصل واڈا کی پریس کانفرنس میں ’خون ہی خون اور لاشیں ہی لاشیں‘ نظر آنے سے متعلق بیان شاید کچھ مسئلہ پیدا کرے۔ اگرچہ پی ٹی آئی کے کارکنان تو پیچھے نہ ہٹیں مگر یہ بیان عام عوام کو ایک بار نہیں کئی بار سوچنے پر مجبور کرسکتا ہے کہ لانگ مارچ میں شرکت کریں یا نہ کریں۔
لانگ مارچ کے لیے پنجاب کا انتخاب ہوا نہ کہ ماضی کی طرح خیبرپختونخوا کا، اب سوال یہ ہے کہ کیا چوہدری پرویز الہٰی جن پر اعتبار کرنا خان صاحب کے لیے تھوڑا مشکل ہورہا تھا، ان کی جانب سے کوئی یقین دہانی کروائی گئی ہے یا پھر خان صاحب اپنی موجودگی سے ان پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں؟ بہرحال اس بار خان صاحب پر لازم ہے کہ پنجاب کو باہر نکالیں تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل کرسکیں۔
یہ لانگ مارچ خان صاحب کے سیاسی مستقبل کا تعین کرے گا اور یہ بات ان کے مخالفین بخوبی جانتے ہیں لہٰذا اس کو ناکام کرنے کی ہر صورت کوشش ہوگی اور اس کے لیے کوئی بھی، جی ہاں کوئی بھی حربہ استعمال کیے جانے سے گریز نہیں کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ ظالم صرف سیاست نہیں ہوتی طاقت کا نشہ اس سے کہیں زیادہ ظالم ہوتا ہے، دعا کریں کہ جو بھی ہو ملک اور اچھے وقت کے انتظار میں بیٹھے عوام کے حق میں بہتر ہو۔