سچ خبریں: قابض صہیونی حکومت نے اپنی پرانی سازش کے تحت فلسطینی عوام کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے اور فلسطینی علاقوں میں بستیوں کی تعمیر کو بڑھانے کے لیے آٹھ دن قبل مغربی کنارے کے خلاف وحشیانہ حملوں کی مہم شروع کی اور اپنی فوجی کارروائی کو خاص طور پر جنین میں جاری رکھا۔
صہیونی فوج کے جنین کے کیمپ میں کیے گئے فیصلے کے بعد، جو شمالی مغربی کنارے کے شہر جنین میں واقع ہے، اس فیصلے کی وجوہات کے بارے میں سوالات اٹھ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جنوبی غزہ اور جنین شہر کے خلاف صیہونیوں کی تازہ ترین جارحیت
علاقے کے سیاسی اور عسکری امور کے ماہرین کا ماننا ہے کہ قابض حکومت کے اس فیصلے کے متعدد اسباب ہیں، جن میں یہ بھی شامل ہے کہ صہیونی فوج دنیا کو یہ بتانا چاہتی ہے کہ اسے فلسطینیوں کی شدید مزاحمت کا سامنا ہے اور دنیا کو اسرائیلیوں کی فلسطینیوں کے خلاف مدد کرنی چاہیے۔
اس حوالے سے علاقے کے عسکری اور اسٹریٹیجک ماہر واصف عریقات نے کہا کہ قابضین دعویٰ کرتے ہیں کہ جو کوئی بھی جنین اور مغربی کنارے میں ان کے سامنے کھڑا ہوتا ہے، وہ ایک جدید اور اعلیٰ صلاحیتوں سے لیس فوج کے مقابل ہوتا ہے۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی عوام، خاص طور پر مغربی کنارے میں، بغیر کسی ہتھیار کے اور صرف ایمان کی قوت اور اپنے حقوق کی پاسداری کے ساتھ دشمن کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور اس راہ میں بے شمار شہداء پیش کر چکے ہیں۔
رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ صہیونی حکومت کی فوج نے مغربی کنارے پر اپنے حملوں کو بڑھانے اور وہاں نفوذ کرنے کے بعد موساد جاسوسی ایجنسی اور صہیونی فوجی انٹیلی جنس سروس (امان) کے زیر قیادت میدان میں تفتیشی کمروں کا قیام کیا ہے، جہاں ہزاروں فلسطینی نوجوانوں کو گرفتار کر کے ان سے تفتیش اور تشدد کیا جا رہا ہے۔
عاصف عریقات نے مغربی کنارے کی صورتحال کے حوالے سے اپنے تجزیے میں کہا: “قابض فوج فلسطینی عوام کے ساتھ اس اصول کے تحت برتاؤ کرتی ہے کہ ‘جو زور سے حاصل نہیں ہوتا، اسے زیادہ زور سے حاصل کیا جائے گا’ اور ان کے خلاف کسی بھی قسم کی وحشیانہ کارروائی سے دریغ نہیں کرتی۔
اس وقت قابض صہیونی فوج مغربی کنارے کے جنوبی علاقے الخلیل کو، جہاں گزشتہ دنوں فلسطینیوں کی جانب سے نمایاں استشہادی کارروائیاں کی گئیں اور قابضین کو شدید نقصان پہنچا، محاصرے میں لے رکھا ہے تاکہ فلسطینیوں پر دباؤ ڈالا جا سکے اور ایک نفسیاتی جنگ کے تحت انہیں متاثر کیا جا سکے۔”
انہوں نے مزید کہا: “قابضین چاہتے ہیں کہ ان علاقوں میں جہاں فلسطینی رہتے ہیں، بنیادی ڈھانچے اور زندگی کی تمام نشانیوں کو تباہ کر کے انہیں بے گھر کر دیں، تاکہ اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کا راستہ کھل جائے۔
صہیونی فوج کی فلسطینیوں کے قتل، گرفتاری، میدان میں پھانسی، تخریب کاری، پانی اور بجلی کی بندش جیسی وحشیانہ کارروائیاں مغربی کنارے میں بستیوں کو بڑھانے کے مقصد سے کی جا رہی ہیں۔”
اس عسکری ماہر نے زور دیا کہ “صہیونی دعویٰ کرتے ہیں کہ جنین کے کیمپ میں موجود تمام فلسطینی اسرائیل کے خلاف ایک مسلح فوج سمجھے جاتے ہیں اور ان سب کو تباہ کر دینا چاہیے۔”
اعداد و شمار کے مطابق جنین کے فلسطینی پناہ گزین کیمپ میں تقریباً 14,000 افراد مقیم ہیں اور ان میں سے تقریباً سبھی وہ نسلیں ہیں جنہیں 1948 میسں اسرائیل کی جعلی ریاست کے قیام کے وقت فلسطین کی مقبوضہ زمینوں سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔
غزہ کی جنگ کے آغاز کے بعد صہیونی فوج کے حملے جنین پر شدت اختیار کر گئے ہیں، اور صہیونیوں نے دعویٰ کیا کہ جنین کا کیمپ مزاحمت کاروں کو پناہ دے رہا ہے۔ اس بہانے سے انہوں نے پورے محلوں کو تباہ کر دیا اور بہت سے نہتے شہریوں کو شہید یا گرفتار کر لیا۔
صہیونی سیاسی تجزیہ کار “آوری گولڈبرگ” کا کہنا ہے کہ “اسرائیلی ہمیشہ خود کو مظلوم تصور کرتے ہیں اور اس بات کو قبول نہیں کر سکتے کہ جنین ایک پناہ گزین کیمپ ہے جہاں فلسطینی اپنے گھروں سے بے گھر ہو چکے ہیں۔
اسرائیلی فلسطینیوں کی حالت زار، خصوصاً کیمپوں میں، کو بالکل نظر انداز کرتے ہیں اور ہم اسرائیلیوں کی جانب سے جنین کو ‘دہشت گردوں کا اڈہ’ جیسے غیر انسانی الفاظ سے بار بار سنتے ہیں۔
مزید پڑھیں: صیہونی فوج جنین سے بھاگنے پر مجبور
انہوں نے مزید کہا: “اسی بنیاد پر، غزہ کی جنگ کے آغاز سے ہم نے اسرائیلی فوج کی جانب سے جنین اور طولکرم کے پناہ گزین کیمپوں پر بڑے پیمانے پر حملے دیکھے ہیں، اور یہ حملے مغربی کنارے کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں زیادہ شدید ہیں۔
اسرائیلی حکام ہمیشہ یہ سوچتے ہیں کہ جنین کو دبانے کے لیے کچھ کرنا ضروری ہے۔”