سچ خبریں: حزب اللہ کے سینئر فوجی رہنما اور خصوصی فورسز رضوان یونٹ کے کمانڈر شہید ابراہیم عقیل، جنہیں تحسین کے لقب سے جانا جاتا تھا، بیروت کے جنوبی علاقے ضاحیہ میں اسرائیلی حملے میں جمعہ کے روز شہید ہوئے، وہ حزب اللہ کے خصوصی دستے رضوان کے اہم کمانڈر تھے۔
ابراہیم عقیل کا شمار حزب اللہ کے اثر و رسوخ رکھنے والے فوجی کمانڈروں میں ہوتا تھا اور وہ شہید فواد شکر کے بعد حزب اللہ کے دوسرے بڑے کمانڈر تھے۔
یہ بھی پڑھیں: حزباللہ کے سینئر کمانڈروں کی میٹنگ پر حملہ کیسے ہوا ؛صہیونی میڈیا کا دعویٰ
امریکہ نے ابراہیم عقیل کی شہادت یا گرفتار کرنے کے لیے معلومات فراہم کرنے والے کو 7 ملین ڈالر انعام کا اعلان کیا تھا۔
ابراہیم عقیل کا جهادی نام تحسین تھا اور وہ 1980 کی دہائی میں حزب اللہ کے جهادی گروپ جنبش جهاد اسلامی کے اہم رکن تھے، جس نے بیروت میں امریکی سفارت خانے پر حملے میں کردار ادا کیا تھا۔
1983 میں لبنان میں امریکی میرینز کے ہیڈکوارٹر پر دھماکہ اس جهادی گروپ کا ایک اور کامیاب مشن تھا۔ امریکی دعویٰ کرتے ہیں کہ ابراہیم عقیل اور ان کے ساتھیوں نے لبنان میں جرمن اور امریکی عہدیداروں کو قید کرنے کی کارروائیاں بھی کیں۔
امریکی وزارت خزانہ نے 2015 میں انہیں اپنی مطلوبہ فہرست میں شامل کیا، جبکہ امریکی وزارت خارجہ نے ستمبر 2019 میں انہیں دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا۔
حزب اللہ کا عملیاتی مائنڈ
حزب اللہ کو مشرق وسطیٰ میں اسلامی مزاحمتی تحریکوں میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے، جو نہ صرف لبنان بلکہ پورے خطے میں سیاسی اور فوجی تبدیلیوں میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہے۔
یہ تنظیم 1980 کی دہائی میں انقلابِ اسلامی ایران سے متاثر ہو کر وجود میں آئی اور جلد ہی لبنان کی سیاست اور عسکری میدان میں ایک کلیدی کردار کی حامل بن گئی۔
اس تنظیم کے فوجی ڈھانچے میں ایک نمایاں شخصیت شہید ابراہیم عقیل تھے، جنہیں عملیاتی طور پر حاج عبدالقادر کے نام سے جانا جاتا تھا۔ وہ حزب اللہ کے اہم کمانڈروں میں شمار کیے جاتے تھے اور تنظیم کی عسکری کارروائیوں کے منصوبہ بندی اور نفاذ میں کلیدی کردار ادا کیا۔
ابراہیم عقیل حزب اللہ کی طویل عسکری اور سیکیورٹی سرگرمیوں میں شامل تھے اور تنظیم کے کئی اہم آپریشنز میں ان کی قیادت اور حکمت عملی نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
ان کا شمار حزب اللہ کے ان اعلیٰ کمانڈروں میں ہوتا تھا جنہوں نے تنظیم کے لیے اہم فوجی آپریشنز کے ڈیزائن اور نفاذ میں کلیدی کردار ادا کیا اور وہ اس میدان میں اپنی گہری مہارت کے باعث تنظیم کے عسکری دماغ سمجھے جاتے تھے۔
ابراہیم عقیل کو حزب اللہ کی اسٹریٹجک میٹنگز میں بھی اہم مقام حاصل تھا اور وہ تنظیم کی فیصلہ سازی میں نمایاں کردار ادا کرتے تھے۔
ان کی سب سے بڑی خصوصیت پیچیدہ عسکری آپریشنز کی کامیاب منصوبہ بندی اور ان کی بہترین قیادت تھی، جس کے باعث حزب اللہ نے کئی محاذوں پر اہم کامیابیاں حاصل کیں۔
33 روزہ جنگ میں کلیدی کردار
ابراہیم عقیل کی عسکری خدمات کا ایک اہم سنگ میل 2006 کی 33 روزہ جنگ میں ان کا کردار تھا، جہاں حزب اللہ نے اسرائیلی فوج کے خلاف کامیاب دفاع کیا۔ اس جنگ میں حزب اللہ نے جدید عسکری حکمت عملیوں اور غیر روایتی جنگی حربوں کا استعمال کرتے ہوئے اسرائیلی فوج کو شدید مشکلات میں ڈال دیا۔ ابراہیم عقیل نے حزب اللہ کی جانب سے اس جنگ کی کامیاب حکمت عملیوں کی منصوبہ بندی اور ان کے نفاذ میں اہم کردار ادا کیا۔
اس جنگ کے دوران، تل ابیب کی جانب سے لبنان کے اہم انفراسٹرکچر پر تباہ کن حملوں کے باوجود، حزب اللہ نے عسکری لحاظ سے ایک بڑی کامیابی حاصل کی، جس نے نہ صرف لبنان میں تنظیم کی ساکھ کو مضبوط کیا بلکہ علاقائی سطح پر اس کی حمایت میں بھی اضافہ کیا۔
وقت کے ساتھ ساتھ، حزب اللہ کی عسکری صلاحیتیں خطے میں طاقت کے توازن کا ایک اہم عنصر بن چکی ہیں، اور ابراہیم عقیل جیسے کمانڈروں نے ان صلاحیتوں کو مضبوط کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ ان کمانڈروں کی رہنمائی میں حزب اللہ ایک مؤثر فوجی طاقت کے طور پر ابھری، جو اسرائیل کے خلاف دفاع اور لبنان کی سرحدوں کی حفاظت میں کامیاب رہی۔
ابراہیم عقیل کی عسکری اور سیکیورٹی سرگرمیاں ان کی بین الاقوامی سطح پر پابندیوں کی زد میں آنے کی وجہ بنیں۔ مغربی ممالک، خاص طور پر امریکہ نے حزب اللہ کے کمانڈروں کو، جن میں ابراہیم عقیل بھی شامل تھے، ان کے عسکری اور سیکیورٹی کردار کی وجہ سے پابندیوں کا نشانہ بنایا، ان پابندیوں میں اثاثے منجمد کرنا اور سفری پابندیاں شامل ہیں۔
مقاومت کے محاذوں کو جوڑنے والے
ابراہیم عقیل کا حزب اللہ اور حماس سمیت مزاحمتی محاذوں کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرنے میں اہم کردار تھا۔
انہوں نے دیگر مزاحمتی گروہوں کے عسکری کمانڈروں کے ساتھ رابطے قائم کرکے ان کے درمیان فوجی ہم آہنگی پیدا کرنے میں فعال کردار ادا کیا۔
ابراہیم عقیل جیسے کمانڈر، جنہوں نے حزب اللہ کی بہت سی عسکری کارروائیوں میں کلیدی کردار ادا کیا، نہ صرف تنظیم کی فوجی صلاحیتوں کو مضبوط کرنے میں معاون رہے، بلکہ لبنان اور خطے میں تنظیم کے اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے اور بڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
مزید پڑھیں: صیہونی حزب اللہ کے ساتھ لڑنے سے کیوں ڈرتے ہیں؟
جمعہ کی شام اسرائیلی حکومت نے ابراہیم عقیل کو نشانہ بنانے کے لیے بیروت کے جنوبی علاقے ضاحیہ میں میزائل حملہ کیا۔
اسرائیلی میڈیا نے حملے کے فوراً بعد اس بات کا اعتراف کیا کہ اس حملے کا مقصد ابراہیم عقیل کو شہید کرنا تھا، جو حزب اللہ کے خصوصی دستے رضوان فورس کے کمانڈر اور الجلیل پر قبضے کی منصوبہ بندی کرنے والے اہم کمانڈروں میں شامل تھے۔ آخرکار، حزب اللہ لبنان نے ایک بیان جاری کرکے ابراہیم عقیل کی شہادت کی تصدیق کی۔