سچ خبریں: سوئٹزرلینڈ میں ہونے والی یوکرین امن کانفرانس میں سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے کہا کہ اس جنگ سے متعلق کسی بھی امن منصوبے میں روس کی شمولیت ضروری ہے۔
رشیا ٹودے کی رپورٹ کے مطابق، سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے سوئٹزرلینڈ میں یوکرین امن اجلاس کے دوران کہا کہ روس یوکرین جنگ کے بارے میں پیش کیے جانے والے کسی بھی امن منصوبے میں روس کی شمولیت ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب ماسکو اور کیف کے درمیان جنگ کے خاتمے اور پائیدار امن و سلامتی کے حصول کے لیے ہر ممکن کوشش کی حمایت کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فرانس اور جرمنی کے یوکرین کے لیے امن منصوبے
سعودی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ امن مذاکرات میں کسی بھی معنی خیز پیش رفت کے لیے فریقین کے درمیان مصالحت ضروری ہے جو روس کی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
یاد رہے کہ فرانس کے صدر امانوئل میکرون نے سوئٹزرلینڈ میں ہونے والے یوکرین امن اجلاس میں کہا کہ روس کی شرائط پر کسی بھی تناؤ کے خاتمے کا معاہدہ نہیں ہونا چاہیے، انہوں نے کہا کہ یوکرین کو پائیدار امن کے قیام کے لیے روس کی خواہشات کے سامنے تسلیم نہیں ہونا چاہیے۔
میکرون نے مزید کہا کہ تمام ممالک کو تنازعات کے خاتمے کی کوششوں میں زیادہ شمولیت کی ضرورت ہے، تاہم، ماسکو کو سوئٹزرلینڈ اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا لہذا کرملین کا کہنا ہے کہ یہ اجلاس اور امن مذاکرات بے معنی ہیں۔
فرانسیسی صدر نے مزید کہا کہ ہم سب پائیدار امن کے قیام کے لیے پرعزم ہیں۔ ایسا امن جس میں یوکرین کی تسلیم نہیں شامل ہو سکتی، یہاں ایک حملہ آور اور ایک مظلوم ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہر معاہدے میں یوکرین کی خودمختاری بحال کرنی چاہیے اور بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنا چاہیے۔
بلومبرگ نے کل اپنی رپورٹ میں لکھا کہ سوئٹزرلینڈ میں جاری یوکرین امن اجلاس امن کے قیام کے کسی حل تک پہنچنے میں ناکام ہونے کا خدشہ ہے۔
خبررساں ادارے نے کہا کہ انصاف پر مبنی امن کے قیام کے راستے تلاش کرنے میں اس اجلاس کی کوششیں کے شاید ناکام ہوں،یوکرین کے صدر ولودیمیر زلنسکی نے عالمی حمایت کے حصول کے لیے کوششیں کرنے کا وعدہ کیا ہے، ۔
واضح رہے کہ اس دو روزہ اجلاس میں چین کی عدم شرکت اور بریکس ممالک کے نچلی سطح کے سفارتکاروں کی موجودگی، کیئف کی جنوبی دنیا کی حمایت حاصل کرنے کی کوششوں کو مشکوک بنا رہی ہے۔
بلومبرگ نے مزید لکھا کہ 90 سے زائد ممالک نے اپنے سفارتی وفود اس اجلاس میں بھیجے ہیں، لیکن شرکت کرنے والوں کی فہرست سے ظاہر ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کرنا ایک بہت مشکل کام ہے۔
واضح رہے کہ سوئٹزرلینڈ آج اور کل تفریحی علاقے بورگن اسٹوک میں یوکرین امن اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے، برن نے جی 7، جی 20 اور بریکس ممالک سمیت 160 سے زائد سفارتی وفود کو اس اجلاس میں مدعو کیا ہے۔
تاہم، منتظمین نے اجلاس سے پہلے اعلان کیا کہ تمام ممالک اپنے سفارتی وفود نہیں بھیجیں گے اور 90 ممالک اور کوسوو کے خودمختار علاقے کے ساتھ آٹھ بین الاقوامی تنظیمیں اس میں شرکت کریں گی۔
فہرست کے مطابق 55 ممالک نے اپنے ملک یا حکومت کے سربراہان کو بھیجا ہے اور مغربی ممالک کی تعداد اس لحاظ سے دوسرے ممالک سے زیادہ ہے، جس سے متوازن مذاکرات اور مشاورت کی امیدیں کم ہو جاتی ہیں۔
مزید پڑھیں: مغربی ممالک یوکرین سے کیا چاہتے ہیں؟یوکرینی صدر کی زبانی
سوئٹزرلینڈ میں جاری یوکرین امن اجلاس میں روس مدعو نہیں ہے اور اقوام متحدہ کے بیشتر رکن ممالک نے اپنے وفود نہیں بھیجے ہیں، مثال کے طور پر، چین شرکت کنندگان کی فہرست میں شامل نہیں ہے اور برازیل صرف ایک مبصر کے طور پر موجود ہے۔
اس اجلاس میں شمولیت نہ کرنے والے کچھ ممالک یہ ہیں:
– جمہوریہ آذربائیجان
– بیلاروس
– قازقستان
– کرغیزستان
– تاجکستان
– ترکمانستان
– ازبکستان
– وینزویلا
– مصر
– ایران
– چین
– کیوبا
– نیکاراگوا
– پاکستان
– شام
– ایتھوپیا
– اور دیگر کئی ممالک
اجلاس کے دوران تین موضوعات پر غور کیا جائے گا:
1. انسانی مسائل
2. جوہری معاملات
3. غذائی تحفظ
در ایں اثنا روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے کل اس بات پر زور دیا کہ روس کی شرکت کے بغیریوکرین جنگ کے لیے پرامن حل تک پہنچنا ناممکن ہے۔