?️
سچ خبریں:ایران اور امریکہ کے درمیان مسقط میں ہونے والے حالیہ غیر مستقیم مذاکرات پر عالمی توجہ مرکوز ہے، ماہرین کے مطابق ایران نے اس عمل کو مضبوط حکمت عملی کے ساتھ کامیابی سے آگے بڑھایا ہے۔
بین الاقوامی تعلقات کی ترک ماہر ڈاکٹر یشیم دمیر نے ایران و امریکہ کے درمیان سلطنت عمان کے دارالحکومت مسقط میں ہونے والے غیر مستقیم مذاکرات کے اثرات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران نے مذاکراتی عمل کو نہ صرف سفارتی مہارت سے سنبھالا بلکہ اپنی شرائط کو بھی موثر انداز میں منوایا۔
ایران کی سفارتی حکمت عملی دنیا کی توجہ کا مرکز
گزشتہ دنوں ایران اور امریکہ کے درمیان ہونے والے ان غیر مستقیم مذاکرات نے عالمی برادری کی توجہ حاصل کی ہے۔ یہ بات چیت ایران کے جوہری پروگرام اور اقتصادی پابندیوں کے خاتمے جیسے اہم موضوعات پر مرکوز تھی۔
ایران نے دو ٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے واضح کیا کہ وہ براہ راست مذاکرات میں دلچسپی نہیں رکھتا اور تمام بات چیت کو اپنے جوہری حقوق کے دائرے میں محدود رکھنا چاہتا ہے۔
ایران کا سخت موقف، امریکہ کے مقابل مضبوط موقف کی علامت
بین الاقوامی امور کے ماہرین کا ماننا ہے کہ ایران کی یہ پالیسی اس کی سفارتی خود مختاری اور مضبوط موقف کی غمازی کرتی ہے۔ ایران کی یہ پالیسی نہ صرف امریکہ پر سفارتی دباؤ برقرار رکھتی ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کی حیثیت کو مستحکم کرتی ہے۔
ترک ماہر کی رائے؛ ایران نے سفارتی عمل کو کامیابی سے سنبھالا
ڈاکٹر یشیم دمیر نے ایران کی حکمت عملی کو تاکتیکی کامیابی قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ ایران نے مغرب کو یہ باور کرا دیا ہے کہ وہ اپنے قومی مفادات پر سمجھوتہ نہیں کرے گا اور اس کی طرف سے تمام مذاکرات منظم اور تدبر پر مبنی طریقے سے ہو رہے ہیں۔
غیر مستقیم مذاکرات مثبت، لیکن جوہری تنازع حل طلب
ایران اور امریکہ کے درمیان حالیہ غیر مستقیم مذاکرات، جو عمان کے دارالحکومت مسقط میں منعقد ہوئے، دونوں فریقین کی جانب سے مثبت اور تعمیری قرار دیے گئے ہیں۔ ان مذاکرات کو باراک اوباما کے دورِ صدارت کے بعد پہلی براہِ راست ملاقات کا درجہ حاصل ہے، تاہم مذاکرات غیر مستقیم طریقے سے انجام پائے۔
ایران کی جانب سے دو ٹوک مؤقف: یورینیم افزودگی ترک نہیں کی جائے گی
باوجود اس کے کہ مذاکرات کے ابتدائی نتائج کو امید افزا سمجھا جا رہا ہے، لیکن اصل چیلنج بدستور باقی ہے، ایران کا مؤقف واضح ہے کہ وہ اپنے یورینیم افزودگی کے پروگرام کو کبھی ترک نہیں کرے گا۔
دوسری طرف، امریکہ مطالبہ کر رہا ہے کہ ایران اپنی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرے، اور اس حوالے سے کسی سمجھوتے کی صورت میں، فوجی کارروائی کی دھمکی بھی دی جا رہی ہے۔
ایران کی حکمت عملی؛ سفارتی استقامت اور تدبر
ایرانی حکام کا مؤقف ہے کہ ان کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن اور توانائی کی پیداوار کے لیے ہے، ایران نہ صرف یورینیم افزودگی کے حق سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں بلکہ اس نے مذاکرات کو صرف جوہری مسئلے کے دائرے تک محدود رکھنے پر بھی زور دیا ہے۔
یہی دو نکات—غیر مستقیم بات چیت اور صرف جوہری موضوع پر فوکس—ایران کی سفارتی بالادستی کی علامت سمجھے جا رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، ایران نے سفارتی حکمت عملی کے تحت مذاکراتی عمل کو کامیابی سے کنٹرول کیا ہے اور خود کو ایک بردبار اور مصالحانہ فریق کے طور پر پیش کیا ہے۔
اعتماد کی کمی اور سابقہ تجربات، مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ
تاہم، اعتماد کی کمی مذاکرات کے مستقبل پر ایک بڑا سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے، خصوصاً جب سے امریکہ نے 2018 میں یکطرفہ طور پر جوہری معاہدہ چھوڑا، یہ عمل ایرانی عوام اور حکومت میں بداعتمادی کا سبب بنا۔ امریکہ کی داخلی سیاسی صورت حال اور ماضی کے دباؤ، مذاکراتی عمل کو مزید پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔
ترکی کا مؤقف؛ پرامن جوہری توانائی کی حمایت، ہتھیاروں کی مخالفت
ترکی، جو ایران کا ہمسایہ اور علاقائی شراکت دار ہے، ایران پر عائد پابندیوں کا مخالف رہا ہے، انقرہ کی خارجہ پالیسی "ملک میں امن، دنیا میں امن” کے اصول پر مبنی ہے۔ ترکی پرامن مقاصد کے لیے جوہری توانائی کے استعمال کی حمایت کرتا ہے، لیکن جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔
ترکی کے لیے ایران اور امریکہ کے مذاکرات قومی سلامتی اور معاشی مفادات کے لحاظ سے نہایت اہم ہیں۔ پابندیاں ختم ہونے کی صورت میں، ترکی اور ایران کے تجارتی تعلقات میں بہتری آئے گی، جو دونوں ملکوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔
اعتماد کی بحالی، طویل المدتی استحکام کی کنجی
مذاکرات کی کامیابی اس امر پر منحصر ہے کہ آیا دونوں فریق برابری کی بنیاد پر مذاکرات جاری رکھنے اور دھمکیوں کی زبان ترک کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں یا نہیں۔ اگر امریکہ فوجی کارروائی کو بطور دباؤ استعمال کرتا رہا اور ایران صرف پابندیاں ہٹوانے پر فوکس کرتا رہا تو مذاکرات ایک بار پھر تعطل کا شکار ہو سکتے ہیں۔
لہٰذا، دونوں ممالک کو فوری سیاسی فوائد کے بجائے طویل المدتی استحکام اور علاقائی امن کو ترجیح دینا ہو گی۔
مشرق وسطیٰ میں بحرانوں کے سائے میں امید اور خدشات کا امتزاج
ایران اور امریکہ کے درمیان جاری غیر مستقیم مذاکرات ایک طرف امید کی کرن ہیں تو دوسری جانب کئی چیلنجز سے بھی گھری ہوئی ہیں، خاص طور پر موجودہ علاقائی بحرانوں جیسے غزہ، لبنان، یمن اور شام کی صورتحال ان مذاکرات کو پیچیدہ بنا رہی ہے۔
اسرائیل کا ناراض ردعمل اور علاقائی امن کی راہ میں رکاوٹیں
مبصرین کے مطابق، صہیونی ریاست اسرائیل ان مذاکرات سے شدید ناخوش ہے، کیونکہ وہ ایران کے جوہری پروگرام کے خاتمے کے بغیر کسی بھی سمجھوتے کو ناقابل قبول سمجھتی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے مذاکرات کے عمل پر مسلسل دباؤ، نہ صرف مذاکرات کو سبوتاژ کر سکتا ہے بلکہ علاقائی امن کے امکانات کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔
مذاکرات کی کامیابی کے لیے داخلی و خارجی عوامل سے اجتناب ضروری
ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ مذاکرات، اگرچہ صلح کے امکانات پیدا کرتے ہیں، مگر یہ عمل بے حد چیلنجنگ ہے۔ مذاکراتی فریقین کو ان تمام اندرونی اور بیرونی اثرات سے گریز کرنا ہوگا جو مذاکراتی عمل کو متاثر کر سکتے ہیں۔
داخلی عوامل: قیادت کی آمادگی اور قومی مفادات کی ترجیح
مذاکرات میں کامیابی کے لیے دونوں فریقوں کی جانب سے مصالحانہ رویہ اپنانا ایک بنیادی شرط ہے۔ لیکن امریکی صدر کی غیر متوقع سفارتی حکمت عملیاں بعض اوقات اس عمل کو متاثر کر سکتی ہیں۔
خاص طور پر ٹرمپ دور حکومت کی وہ پالیسیاں جن میں ایران کے میزائل پروگرام پر پابندیاں اور علاقائی مزاحمتی گروہوں کی حمایت ختم کرنے کے مطالبات شامل تھے، اب بھی ایک ممکنہ رکاوٹ کے طور پر سامنے آ سکتی ہیں۔
بیرونی عوامل: اسرائیلی مخالفت اور عرب ریاستوں کی غیر واضح حمایت
اسرائیل کی مکمل مخالفت اور ایران کے جوہری انفرااسٹرکچر کے خاتمے کا اصرار مذاکرات کو مزید دشوار بناتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، خطے کی عرب ریاستوں کا غیر واضح موقف بھی ایک اور پیچیدہ عنصر ہے، جو مذاکراتی عمل کی کامیابی کو متاثر کر سکتا ہے۔
مذاکرات، امید کی راہ یا نیا محاذ؟
یہ واضح ہے کہ ایران-امریکہ مذاکرات نہ صرف دوطرفہ تعلقات بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کے امن و استحکام پر اثر ڈال سکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ فریقین صرف باہمی مطالبات پر توجہ نہ دیں، بلکہ بڑی تصویر کو مدنظر رکھتے ہوئے مذاکرات کو اعتماد، توازن اور دور اندیشی سے آگے بڑھائیں۔
Short Link
Copied
مشہور خبریں۔
وزیر داخلہ کا اہم انکشاف، گوادر اور کوئٹہ میں حملہ کرنے والے دہشتگرد افغانستان سے آئے تھے
?️ 6 ستمبر 2021اسلام آباد (سچ خبریں) وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے اہم انکشاف
ستمبر
یوکرین میں نیٹو فوج بھیجنے کا برطانیہ کا خیال ؛سی آئی سے سابق افسر کی زبانی
?️ 4 فروری 2024سچ خبریں: امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے ریٹائرڈ
فروری
استعفوں کی منظوری کیلئے پی ٹی آئی کے اراکین ذاتی طور پر پیش ہوں، اسپیکر قومی اسمبلی
?️ 26 دسمبر 2022اسلام آباد:(سچ خبریں) قومی اسمبلی کے اسپیکر راجا پرویز اشرف نے حال
دسمبر
پاکستان کے یورپی یونین سے اہم اور وسیع تعلقات ہیں، ترجمان دفتر خارجہ
?️ 14 مارچ 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ نے کہا ہے
مارچ
کہاں جائیں جلاوطن آزاد فلسطینی ؟
?️ 4 فروری 2025سچ خبریں: حماس تحریک کے شہداء اور قیدیوں کے دفتر کے میڈیا
فروری
واٹس ایپ کا بھی مصنوعی ذہانت کا استعمال
?️ 16 اگست 2023سچ خبریں: واٹس ایپ نے آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) ٹیکنالوجی پر
اگست
چین کی داؤس کانفرانس میں سعودی وفد
?️ 27 جون 2023سچ خبریں:چین مشرق وسطیٰ کے ساتھ تعاون کو گہرا کر رہا ہے
جون
یہ فوجداری مقدمہ ہے، شک کا معمولی سا فائدہ بھی ملزمان کو ہی جائے گا، عدالت
?️ 22 اپریل 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) اسلام آباد ہائیکورٹ میں قائد پی ٹی آئی
اپریل