سچ خبریں: صہیونی حلقوں اور ماہرین نے یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ تل ابیب حماس کے قیدیوں کے تبادلے کے مطالبات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے، یحییٰ السنوار کو خطے کا حکمت عملی بنانے والا سب سے بڑا ہیرو مانتے ہیں۔
انٹر ریجنل اخبار رائے الیوم کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے معاملے کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات کی حالیہ صورتحال کی روشنی میں صہیونی ماہرین کا خیال ہے کہ اسرائیلی فوج اور کابینہ نے غزہ جنگ کے دوران اپنے غیر معقول اور غیر منطقی اقدامات کے ساتھ اسرائیل کو ایک تعطل تک پہنچا دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا حماس اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹے گی؟
اسی تناظر میں عبرانی اخبار یدیوت احرونٹ میں تزویراتی امور کے تجزیہ کار رونن پرگمان نے کہا ہے کہ اسرائیل کی حالت یہ ہو چکی ہے جہاں وہ خود کو حماس تحریک کے مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور پاتا ہے تاکہ غزہ میں اس تحریک کے پاس موجود صہیونی قیدیوں کی رہائی کا معاہدہ طے پا سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جنگ شروع ہونے کے کچھ عرصے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ غزہ کی پٹی میں جنگ جاری رہنے سے اسرائیلی قیدیوں کی ہلاکتیں ہوں گی اور آج اسرائیل کا سیاسی اور فوجی پروپیگنڈہ آلہ کار اپنے شہریوں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، کہ رفح پر حملہ حماس کے موقف میں نرمی کا باعث بنے گا جبکہ ماضی کے تجربے نے ثابت کیا ہے کہ حماس پر فوجی دباؤ کام نہیں کرتا۔
غاصب حکومت کی انٹیلی جنس سروسز کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے والے اس ممتاز صیہونی تجزیہ نگار نے مذاکرات میں شامل صیہونی فریقوں میں سے ایک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حقیقت میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی سے اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے کوئی حقیقی مذاکرات نہیں کیے ہیں، اگر ایسا ہوتا تو یہ قیدی اب تک تل ابیب واپس آ چکے ہوتے۔
پرگمان نے اس صہیونی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے تاکید کی کہ پہلے تو ہمیں بتایا گیا تھا کہ غزہ کی پٹی میں زمینی کارروائی اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور ان کی اپنے گھروں کو واپسی کا باعث بنے گی لیکن ایسا نہیں ہوا اور ہم سب جانتے ہیں حماس تحریک اس حملے کے لیے پہلے سے تیار تھی۔
اس صہیونی اہلکار نے واضح کیا کہ اسرائیل کے سیاسی اور فوجی رہنماؤں نے دعویٰ کیا ہے کہ خان یونس پر حملہ حماس کے ہتھیار ڈالنے کا باعث بنے گا، یعنی جب غزہ کی پٹی میں حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار کو محسوس ہوگا کہ اسرائیلی فوج ان کے قریب پہنچ گئی ہے تو وہ تسلیم ہو جائیں گے لیکن حقیقت میں جو ہوا وہ اس کے بالکل برعکس تھا اور حماس نے اسرائیل کو مشکل میں ڈال دیا۔
اس صہیونی اہلکار کا کہنا تھا کہ اب بھی وہ ہمیں کہہ رہے ہیں کہ اگر ہم غزہ کی پٹی کے جنوب میں واقع شہر رفح پر قبضہ کر لیں تو غزہ کی پٹی سے اسرائیلی قیدیوں کو آزاد کرنے کے ساتھ ساتھ یحییٰ سنوار کا سر بھی الگ کر سکتے ہیں جبکہ ہم سب کو معلوم ہے کہ رفح پر اسرائیلی حملے کے بعد ایک بھی اسرائیلی قیدی کے زندہ بچ جانے کا امکان نہیں ہوگا۔
ممتاز صہیونی ماہر رونن پرگمن نے اپنے تجزیے میں اس بات پر زور دیا کہ تل ابیب اپنے دو اہم اہداف کسی بھی طرح حاصل نہیں کر سکتا، یعنی حماس کی تباہی اور اپنے کے قیدیوں کی رہائی، اور لکھا کہ یہ دونوں اہداف ابھی تک حاصل نہیں ہو سکے ہیں، جنگ کے ایک طویل دورانیے،اسرائیلی فوج نے عملی طور پر جنوری کے وسط سے کوئی کامیاب فوجی کارروائی نہیں کی۔
اس صہیونی ماہر نے صیہونی حکومت کے ایک اعلیٰ سیکورٹی اہلکار کے حوالے سے کہا کہ جنگ میں مکمل فتح کے بارے میں بنیامین نیتن یاہو کا نعرہ دراصل بالکل پاگل پن ہے۔
اسرائیلی تجزیہ کار نے واضح کیا کہ تل ابیب میں سیاسی اور سیکورٹی رہنماؤں کے ایک گروپ کو مکمل یقین تھا کہ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی قیمت میں کمی نہیں آئے گی، لیکن اس کے برعکس ہر دن جو گزرتا ہے اور اسرائیل اس معاہدے تک نہیں پہنچ سکتا، اس کی قیمت بھاری ہو جاتی ہے۔
ادھر اسرائیلی کابینہ اور فوج کی جانب سے میڈیا میں جھوٹی خبریں شائع کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور میڈیا کو جھوٹ کی اشاعت کے میدان میں فوج اور کابینہ کے ساتھ تعاون کرنے پر جوابدہ ہونا چاہیے۔
دوسری جانب صہیونی سیاسی اور عسکری تجزیہ کار اور ماہر روجیل الفرید نے عبرانی اخبار Ha’aretz میں کہا ہے کہ آباد کاروں سے لے کر رہنماؤں تک تمام اسرائیلیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہ تسلیم کریں کہ جنگ کے انتظام سے متعلق ہر چیز میں، یحییٰ السنوار سیاسی اور عسکری طور پر تل ابیب کے تمام عہدیداروں سے برتر ہیں۔
مزید پڑھیں: کیا اسرائیل حماس کو ختم کر سکتا ہے؛ موساد کے سابق سربراہ کا اعتراف
انہوں نے مزید کہا کہ یحییٰ السنوار عملی طور پر شطرنج کے ماہر کھلاڑی ہیں جو ہمیشہ اپنے آپ سے ایک قدم آگے دیکھتے ہیں اور اپنے مقاصد اور خواہشات کو اچھی طرح چھپاتے ہیں، آپ کبھی بھی اندازہ نہیں لگا سکتے کہ وہ کس طرح حملہ کرنے والا ہے اور یہ اسرائیل کے لیے انتہائی ذلت آمیز اور توہین آمیز ہے جو اپنے آپ کو اندھا محسوس کرتا ہے۔
اس صہیونی تجزیہ کار نے اس بات پر زور دیا کہ السنوار خطے کا سب سے ماہر حکمت عملی ہے اور اس نے 7 اکتوبر کے بعد جنگ کو سنبھالنے میں کوئی غلطی نہیں کی ہے۔