فلسطینیوں کے مستقبل کے لیے امریکی اور اسرائیلی خطرناک منظرنامے

امریکی

?️

سچ خبریں: صیہونی ریاست کی غزہ میں جنگ بندی کے عمل میں رکاوٹیں کھڑی کرنے اور دوسرے مرحلے میں داخلے سے روکنے کی مکاریوں کے پس منظر میں، کچھ علاقائی اور بین الاقوامی مبصرین اور حلقوں کا خیال ہے کہ صیہونیوں نے غزہ کے لیے ایک نیا طویل المدتی منصوبہ تیار کر لیا ہے۔
اس سلسلے میں الجزیرہ نے ایک فلسطینی مصنف اور تجزیہ کار احمد الحیلہ کے قلم سے صیہونیوں کے اس امریکی حمایت یافتہ منصوبے کے پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے جس کا متن درج ذیل ہے:
غزہ کے نازک فائر بندی کے پہلے مرحلے کا آخری عمل
غاصب صیہونی ریاست اپنے تمام زندہ قیدیوں کے ساتھ ساتھ زیادہ تر ہلاک قیدیوں کی لاشیں بھی واپس لے چکی ہے جو عزالدین القسام بریگیڈز، حماس کے فوجی ونگ اور دیگر مزاحمتی گروپوں کے پاس تھیں۔ ان میں کرنل "آساف حمامی” کی لاش بھی شامل ہے جو غزہ ڈویژن میں سدرن بریگیڈ کے کمانڈر تھے اور جنہیں مزاحمت نے گزشتہ ہفتے پیر کے روز حوالے کیا تھا۔ وہ صیہونی فوج کے سب سے سینئر افسر تھے جو مزاحمت کی قید میں تھے۔
قیدیوں کے تبادلے کا عمل، جو اب اپنے آخری مراحل میں ہے، بنجمن نیتن یاہو، غاصب ریاست کے وزیر اعظم کے لیے ایک اہم چیلنج تھا، کیونکہ صیہونی ریاست کا معاشرہ، خاص طور پر قیدیوں کے خاندان اور صیہونی فوجی اور افسر، ان قیدیوں کی واپسی کو زندہ یا مردہ شکل میں نہایت ضروری سمجھتے تھے۔
اگرچہ قیدیوں کے تبادلے کا معاملہ صیہونیوں کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے، لیکن شاید یہ فائر بندی معاہدے کا سب سے آسان حصہ تھا، کیونکہ متعدد دیگر معاملات ہیں جو غزہ کے سیاسی اور سلامتی مستقبل سے متعلق ہیں اور قیدیوں کے تبادلے سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں۔
بہر حال، قیدیوں کے تبادلے کے معاملے کے حل کو دیگر مسائل میں پیشرفت کی ایک مثبت علامت سمجھا جا سکتا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ امکان بھی ہے کہ صیہونی ریاست اپنے سلامتی اور انسانی فرائض سے پھر جائے۔
قیدیوں کے تبادلے کے عمل میں صیہونی ریاست غزہ فائر بندی معاہدے، خاص طور پر اس کے انسانی حقوق کے پروٹوکول پر پوری طرح عملدرآمد نہیں کرائی اور اس پٹی میں خوراک اور ادویات کی ضروریات کا 25 فیصد سے بھی کم اور ضروری ایندھن کا محض 10 فیصد ہی داخل ہونے دیا۔
اس کے علاوہ، غاصبوں نے غزہ میں اپنی جارحیتوں کا ازسرئو آغاز کر دیا ہے، اور فائر بندی معاہدے کے نفاذ کے ایک مہینے کے دوران صیہونی حملوں میں 250 سے زائد فلسطینی شہید اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ غاصبوں کا فائر بندی نافذ کرنے کا کوئی حقیقی ارادہ نہیں ہے۔
درحقیقت، فائر بندی معاہدے نے، اگرچہ صیہونی ریاست کی غزہ کے خلاف نسل کشی اور وسیع پیمانے کی جنگ کو روکا ہے، اب تک فلسطینیوں کو غزہ سے بے گھر ہونے سے روکا ہے، اس پٹی میں جزوی امداد کے داخلے کی اجازت دی ہے، اور صیہونی فوجوں کے غزہ سے مکمل انخلاء کو یقینی بنایا ہے، لیکن اس کے اندر پیچیدہ معاملات کا ایک مائن فیلڈ موجود ہے جو مستقبل میں سیاسی کشیدگی اور یہاں تک کہ سلامتی کے تصادم کا باعث بن سکتا ہے۔
غزہ کا انتظام: دو نقطہ ہائے نظر کا تصادم
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ کے لیے منصوبہ فلسطینی ٹیکنوکریٹس اور بین الاقوامی ماہرین پر مشتمل ایک انتظامی کمیٹی کے قیام کی تجویز دیتا ہے جو برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی نگرانی اور انتظام میں ہو اور غزہ کے شہری اور خدماتی معاملات کی دیکھ بھال کرے۔
ٹرمپ کے منصوبے کے مطابق، یہ عمل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ فلسطینی اتھارٹی اپنی اصلاحات کا پروگرام مکمل نہیں کر لیتی، حالانکہ امریکہ اور اسرائیل خود جانتے ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی کے پاس نہ تو اصلاحات کا کوئی منصوبہ ہے اور نہ ہی وہ اسے انجام دے سکتی ہے۔ اس طرح، ٹرمپ کے منصوبے میں تجویز کردہ کمیٹی آہستہ آہستہ غزہ کے انتظام کے لیے ایک مستقل اتھارٹی بن جائے گی جو امریکہ اور اسرائیل کے زیر کنٹرول ہوگی۔
اس کے برعکس، حماس اور دیگر فلسطینی گروپوں پر زور دیتے ہیں کہ غزہ پٹی کا انتظام مکمل طور پر فلسطینی ٹیکنوکریٹس کے ایک ادارے کے ذریعے ہونا چاہیے بغیر کسی غیر ملکی مداخلت کے، جس کا سربراہ غزہ کے اندر سے یا فلسطینی اتھارٹی کے وزراء میں سے منتخب کیا جائے اور اس کے تمام ارکان فلسطینی قومی اجماع کے مطابق ہوں۔
مزاحمت کے ہتھیاروں کا حساس معاملہ
ٹرمپ کا منصوبہ مزاحمت کو غیر مسلح کرنے، اس کے بنیادی ڈھانچے خاص طور پر سرنگوں کو تباہ کرنے، اور صیہونی فوج کے غزہ سے مکمل انخلاء کو اس مقصد کے حصول پر مشروط کرنے پر زور دیتا ہے، اور نیز ہتھیاروں کے غزہ میں داخلے کو روکنے اور سرحدوں پر کنٹرول کے لیے ایک بین الاقوامی فورس کے قیام کی تجویز دیتا ہے۔
دوسری طرف، حماس اور دیگر فلسطینی گروپ زور دیتے ہیں کہ مزاحمت کے ہتھیاروں کا معاملہ ایک اندرونی مسئلہ ہے اور سب سے پہلے ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم ہونی چاہیے، اس کے بعد ہتھیاروں کے معاملے پر فلسطینی قومی فریم ورک کے تحت غور کیا جائے گا۔
اس دوران، مصر، غزہ اور فائر بندی عمل میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر، ایک محتاط موقف اختیار کیے ہوئے ہے۔ مصر کے اطلاعاتی ادارے کے سربراہ ضیاء رشوان نے کہا کہ اسرائیل حماس کو غیر مسلح کرنا چاہتا ہے، لیکن حماس اپنے ہتھیاروں کو فلسطینی مزاحمت کا ہتھیار سمجھتی ہے، اس لیے ایک متبادل منصوبہ سامنے آیا ہے جس کے تحت حماس کے ہتھیاروں کو ختم کرنے کے بجائے 10 سال کے لیے ضبط کر لیا جائے۔
درحقیقت، مصر کا خیال ہے کہ فلسطینی عوام سے خودارادیت کے حق اور آزاد ریاست کے قیام کے حصول کے بغیر ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری طرف، تاریخی طور پر، غزہ مصر کا مشرقی دروازہ سمجھی جاتی ہے اور اس پٹی کا اسرائیل کے کنٹرول میں چلے جانا مصر کی قومی سلامتی کے لیے ایک براہ راست خطرہ ہے۔
غزہ میں بین الاقوامی فورس: امن محافظ یا اسرائیل کے مفادات کے محافظ؟
ٹرمپ کے منصوبے میں غزہ میں ایک طویل المدتی حل کے طور پر ایک بین الاقوامی فورس کے قیام کی تجویز دی گئی ہے، لیکن اس بین الاقوامی فورس کے فرائز، اختیارات اور پالیسی میکنزم ابھی تک غیر واضح ہیں۔ صیہونی ریاست ترکی اور قطر کی اس بین الاقوامی فورز میں موجودگی کے خلاف ہے، جو فائر بندی معاہدے کے ضامن ہیں، کیونکہ اس کا خیال ہے کہ مذکورہ ممالک کا حماس کی تحریک کے ساتھ قریبی تعلقات اسرائیل کے لیے براہ راست خطرہ ہیں۔
گزشتہ سالوں کے دوران ترکی نے عراق، شام، مصر، لیبیا اور سوڈان جیسے ممالک میں بڑھتی ہوئی علاقائی کردار ادا کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کے ساتھ بھی قریبی تعلقات ہیں۔ اسی بنیاد پر، صیہونی غزہ میں ترکی کی فوجی موجودگی کو تشویشناک سمجھتے ہیں۔
اس کے علاوہ، بین الاقوامی فورس کے حوالے سے کئی اہم سوالات کے جوابات ابھی باقی ہیں، جن میں شامل ہیں: اس فورس کی پالیسی میکنزم کیا ہوگی؟ کیا یہ سلامتی کونسل کے تحت کام کرے گی یا امریکہ اور اسرائیل کے تحت؟ روس اور چین کا غزہ میں اس بین الاقوامی فورس کے حوالے سے کیا موقف ہوگا؟ کیا اس فورس کا مشن غزہ کی صورت حال کی نگرانی اور انتظام کرنا ہے یا مزاحمت کو غیر مسلح کرنا اور فلسطینی گروپوں کا پیچھا کرنا ہے؟
وہ جنگ جو ختم نہیں ہوئی اور وہ معاملات جو حل نہیں ہوئے
شاید ٹرمپ کے منصوبے نے غزہ کی جنگ کے پہلے مرحلے کو روک دیا ہے اور فلسطینیوں کو اس پٹی سے جبری بے دخلی سے روک دیا ہے، لیکن اہم معاملات اب بھی حل طلب ہیں: مزاحمت کو غیر مسلح کرنا، غزہ پٹی پر طویل المدتی بین الاقوامی ٹرسٹی شپ، اور فلسطینی عوام کے حق خودارادیت کو نظر انداز کرنا۔
یہ صورت حال فائر بندی معاہدے کو نازک بنا رہی ہے، اور اگرچہ گزشتہ دو سالوں کی طرح جنگ میں واپسی کا امکان کم لگتا ہے، لیکن یہ واضح ہے کہ امریکہ اور اسرائیل جنگ کے اپنے بنیادی مقاصد یعنی حماس کو غزہ پٹی سے ختم کرنے اور اسے غیر مسلح کرنے کے حصول کی کوششوں سے دستبردار نہیں ہوں گے۔
اسی لیے صیہونی غزہ کے خلاف اپنی جارحیت، اگرچہ محدود پیمانے پر، جاری رہے ہیں، اور یہ حملے جن کے نتیجے میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران سینکڑوں شہری شہید اور زخمی ہوئے ہیں، واشنگٹن اور تل ابیب کے اپنے جنگی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے دباؤ کا ایک حصہ ہیں۔
غزہ کی تقسیم کا اسرائیل کا خطرناک سینئیرو
غاصب صیہونی ریاست کا ارادہ ہے کہ وہ غزہ پٹی کے وسیع حصوں پر اپنا کنٹرول برقرار رکھتے ہوئے اس پٹی کے رہائشیوں کی معاشی حالت اس طرح رکھے کہ وہ ہمیشہ زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے دوڑتے رہیں اور مسلسل معاشی بحران کا شکار رہیں۔
اس مقصد کے حصول کے لیے صیہونی دو محاذوں پر کام کر رہے ہیں:
• پہلا محاذ: غزہ کے انسانی المیے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں کے رہائشیوں کو جبری بے دخلی پر مجبور کرنا۔ درحقیقت، صیہونی دشمن کا خیال ہے کہ غزہ کی تعمیر نو کو روک کر، اس پٹی کے رہائشی زندگی کی کم از کم بنیادی سہولیات حاصل کرنے کے لیے ہجرت پر مجبور ہو جائیں گے اور آہستہ آہستہ دوسرے ممالک میں آباد ہو جائیں گے۔
• دوسرا محاذ: غزہ کو مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم کرنا۔ اگر مزاحمت کو غیر مسلح کرنے اور غزہ پر بین الاقوامی ٹرسٹی شپ کا پروگرام ناکام ہو جاتا ہے، تو صیہونی ریاست غزہ کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتی ہے: پہرا زون حماس کے زیر انتظام مغربی نصف پر مشتمل ہوگا جہاں غزہ کی 2 ملین آبادی ہے، اور دوسرا زون مشرقی نصف پر مشتمل ہوگا جو آبادی سے خالی ہوگا اور اسرائیلی فوج کے مکمل کنٹرول میں ہوگا۔
اس سینئیرو کے مطابق، صیہونی ریاست امریکی حمایت سے غزہ کے مشرقی نصف کو ان فلسطینیوں کے لیے دوبارہ آباد کرنے کی تعمیر نو کر سکتی ہے جو نام نہاد "محفوظ” علاقوں میں رہنا چاہتے ہیں۔ یہ عمل ٹرمپ کے اس منصوبے کے اس حصے سے بھی مطابقت رکھتا ہے جس میں زور دیا گیا تھا کہ اگر حماس غزہ چھوڑنے اور غیر مسلح ہونے سے انکار کرتی ہے تو امداد اور تعمیر نو صرف غزہ کے مشرقی علاقوں میں کی جائے گی۔
امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کے بیان نے بھی اس سینئیرو کو تقویت دی ہے، جب انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ اگلے 2 سے 3 سالوں میں تقریباً نصف ملین افراد رفح میں آباد ہوں گے۔
درحقیقت، اس سینئیرو کا مقصد غزہ کے معاشرے اور مزاحمت کے درمیان تعلق کو ختم کرنا ہے، وہ معاشرہ جس نے صیہونی ریاست کی اس پٹی کے خلاف دو سالہ تباہ کن اور نسل کشی کی جنگ کے دوران مزاحمت کا ساتھ دیا اور عوام کی یہی حمایت مزاحمت کی طاقت کا ایک اہم حصہ تھی۔
اسی بنیاد پر، صیہونی اپنے جنگی مقاصد حاصل کرنے میں اپنی فوجی حکمت عملی کی ناکامی کے بعد، عوامی حمایت کو نشانہ بنا رہے ہیں اور اسے مزاحمت سے الگ تھلگ کرنے اور جدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ مزاحمت کے خاتمے اور اس کے کمزور ہونے کا راستہ ہموار کیا جا سکے۔
آخر میں، ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ جنگ کا پہلا دور تو رک گیا ہے، لیکن یہ جنگ جاری ہے اور اس کے باب ختم نہیں ہوئے ہیں۔

مشہور خبریں۔

ورثائے شہدائے جموں وکشمیر کی طرف سے معروف عالم دین حافظ عبدالسلام بن محمد کے انتقال پر رنج و غم کا اظہار

?️ 2 جون 2023سرینگر: (سچ خبریں) غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں

کیا 2024 کے انتخابات کے لیے بائیڈن اور ٹرمپ دونوں نااہل ہیں؟

?️ 21 ستمبر 2023سچ خبریں: ہل میگزین نے اپنی ایک رپورٹ میں جو بائیڈن کو

فلسطینی علماء کا صہیونیوں کے خلاف بیان

?️ 25 جون 2023سچ خبریں:فلسطینی علماء یونین نے آج غزہ میں ایک پریس کانفرنس میں

فیکٹ چیک: عمران خان کی جانب سے نواز شریف کی تعریفیں کرنے کی ویڈیو جعلی ہے

?️ 1 اکتوبر 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) سوشل میڈیا پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے

اردو کا شمار دنیا کی بڑی زبانوں میں ہوتا ہے: فودا چوہدری

?️ 11 دسمبر 2021کراچی(سچ خبریں) وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ اردو

پی پی پی کا ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات کیلئے سندھ میں 25 اپریل کو احتجاج کا اعلان

?️ 23 اپریل 2023اسلام آباد:(سچ خبریں) پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) سندھ کے صدر نثار

سعودی عرب میں درجنوں قیدیوں کا نامعلوم انجام

?️ 9 جنوری 2022سچ خبریں:  انسانی حقوق کی تنظیم سندھ نے سعودی حکام کی جیلوں

یمن جنگ امریکہ کے لیے اربوں ڈالر کے اخراجات کا باعث بنی

?️ 10 مئی 2025سچ خبریں: این بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق، یمن میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے