برطانیہ نے فلسطین میں یہودیوں کو بسانے کی ذمہ داری کیسے قبول کی؟

برطانیہ

?️

برطانیہ نے فلسطین میں یہودیوں کو بسانے کی ذمہ داری کیسے قبول کی؟

 اعلانِ بالفور دراصل ایک غیر معمولی سفارتی دستاویز تھی جس میں برطانوی حکومت نے آنگلو یہودی برادری کی ممتاز شخصیت لارد روتشیلڈ کو یقین دہانی کرائی کہ وہ فلسطین میں یہودیوں کا قومی وطن قائم کرنے میں مدد دے گی۔

انیسویں صدی کے اواخر میں جب فلسطین ایک نئے تاریخی مرحلے کے دہانے پر تھا، صہیونیت بطور ایک بیرونی اور اجنبی نظریہ سامنے آیا اس نظریے کی جڑیں یورپ کے سولہویں صدی کے پروٹسٹن مسیحیوں میں تھیں جو بائبل کی پیش گوئیوں کے مطابق یهودیوں کی "صہیون” واپسی کو مسیح کی دوسری آمد اور آخری زمانے کے آغاز کا سبب سمجھتے تھے۔ یہی حلقے یهودیوں کو ایک مذہبی گروہ کے بجائے ایک قوم کے طور پر پیش کرنے لگے اور یہی سوچ آگے چل کر برطانیہ اور امریکا کی اعلیٰ سیاسی سطحوں تک پہنچی۔

اسرائیلی مورخ ایلان پاپے اپنی کتاب صہیونیزم کے لئے لابی گری میں بتاتے ہیں کہ کس طرح ایک صدی سے زائد لابنگ کے ذریعے برطانوی اور امریکی سیاست دانوں کو اس بات پر آمادہ کیا گیا کہ وہ فلسطینیوں کے حقوق کو نظر انداز کریں اور صہیونی منصوبے کی پشت پناہی کریں۔

برطانوی وزارتِ اطلاعات نے عالمی سطح پر اعلانِ بالفور کی حمایت بڑھانے کے لیے اہم صہیونی کارکن آلبرٹ مونٹفیوری ہیمسن کو اپنا مرکزی چہرہ بنایا۔ وہ نہ صرف صہیونی تحریروں کے مؤثر مصنف تھے بلکہ برطانوی وزرائے اعظم تک رسائی رکھتے تھے۔ ان کے مضامین اور فلمی پروپیگنڈے نے، خصوصاً 1917 میں جنرل ایلبی کے یروشلم میں داخلے کے بعد، صہیونی ایجنڈے کو بہت تقویت دی۔

1917 میں برطانوی حکومت، صہیونی قیادت اور وزارتِ خارجہ کے درمیان مسلسل مشاورت کے بعد اعلانِ بالفور کا مسودہ تیار کیا گیا۔ برطانوی یہودی نمائندہ کونسل میں بھی اس پر ووٹنگ ہوئی، جس میں سخت اختلافات سامنے آئے، اسی لیے یہ اعلان براہِ راست روتشیلڈ کو بھیجا گیا جو اس منصوبے کے پُرجوش حامی تھے۔

بالآخر 31 اکتوبر 1917 کو برطانوی کابینہ نے اعلانِ بالفور کی منظوری دی اور چند دن بعد اسے پارلیمان میں پڑھ کر سنایا گیا۔ یہ پہلا باضابطہ وعدہ تھا جس میں ایک بڑی نوآبادیاتی طاقت نے فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن کے قیام کا عہد کیا، اگرچہ اس وقت یہودی آبادی فلسطین میں دس فیصد سے بھی کم تھی۔

1918 کے آخر تک برطانیہ نے پورے فلسطین پر قبضہ کر لیا اور پھر 1920 میں بین الاقوامی معاہدے کے تحت اسے فلسطین کی قیمومیت دے دی گئی۔ یوں اعلانِ بالفور محض ایک خط نہیں رہا بلکہ 1922 میں قیمومیت کے منشور میں شامل ہو کر فلسطین کے مستقبل پر فیصلہ کن اثر رکھنے والا قانونی ہتھیار بن گیا۔

اسی بنیاد پر جب ہربرت سیموئل 1920 میں فلسطین کا پہلا ہائی کمشنر مقرر ہوا تو اس نے اپنے دور میں برطانوی پالیسی کو واضح طور پر صہیونیت کی جانب مائل رکھا۔ یہی وہ قدم تھا جس نے فلسطین کے سیاسی نقشے کو بدل کر رکھ دیا اور آنے والے برسوں میں اسرائیلی ریاست کے قیام کی بنیاد رکھی۔

مشہور خبریں۔

اردنی حکام کیوں صیہونیوں کے تلوے چاٹ رہے ہیں؟

?️ 24 اپریل 2024سچ خبریں: اردن کی موجودہ حکومت کا اہم مقصد صیہونی حکومت کے

یمن, صہیونی انٹیلی جنس کی ناکامیوں کا نیا میدان

?️ 1 ستمبر 2025یمن, صہیونی انٹیلی جنس کی ناکامیوں کا نیا میدان  اسرائیلی فضائیہ کا

کرپشن کرنے والا کوئی بھی ہو بچ نہیں پائے گا: فردوس عاشق

?️ 11 مئی 2021لاہور (سچ خبریں)وزیراعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان کا کہنا

امریکہ کی چین کو دھمکی

?️ 15 مارچ 2022سچ خبریں:وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل مشیر نے بیجنگ کو خبردار

جب تک سرزمین فلسطین کو مکمل آزادی نہیں مل جاتی جدوجہد جاری رہے گی: انصاراللہ

?️ 31 مارچ 2022سچ خبریں:  تحریک انصاراللہ کے سیاسی بیورو نے تل ابیب کے علاقے

میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف عوامی مظاہرے

?️ 4 فروری 2021سچ خبریں:میانمار کے متعدد شہروں میں عوام فوجی بغاوت کے خلاف مظاہرے

اسرائیل نے سعودی عرب سمیت دو عرب ممالک کو فوجی اتحاد بنانے کی دعوت دے دی

?️ 24 جون 2021تل ابیب (سچ خبریں) اسرائیل نے سعودی عرب سمیت دو عرب ممالک

آسمانی کتابوں کی توہین آزادی بیان کے خلاف ہے؟ ڈنمارک کی وزیراعظم کا کیا کہنا ہے؟

?️ 5 اگست 2023سچ خبریں: ڈنمارک کیوزیر اعظم نے واضح کیا کہ آسمانی کتابوں کی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے