سچ خبریں:امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے عہدیداروں کے کاکہنا ہے کہ پینٹاگون نے روس چین چیلنجوں پر توجہ مرکوز کرنے کے بہانے سے خطے میں اپنی فوجی موجودگی کی تنظیم نو کرنے کے لیے مشرق وسطی میں اپنے ائر کرافٹ نظام کی تعداد کم کردی ہے۔
امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل نے امریکی عہدیداروں کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ امریکی محکمہ دفاع عراق ، کویت ، اردن اور سعودی عرب سمیت متعدد ممالک سے آٹھ کے قریب پیٹریاٹ سسٹم واپس لے جائے گا اور سیکڑوں افراد کی واپسی کے علاوہ سعودی عرب سے ٹاڈ میزائل نظام بھی ختم کردیا جائے گا،یہ ان ہزاروں فوجیوں اور یونٹوں کی واپسی کے علاوہ ہے جو ان سسٹم کو استعمال کرتے ہیں یا ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔
وال اسٹریٹ جنرل کے مطابق اس مہینے میں غیر معمولی فوجی انخلا کا آغاز ہوا جس کے بارے میں پہلے سے اطلاع نہیں دی گئی تھی، یادرہے کہ کہ اس سے پہلے امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے2جون کو سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو ٹیلیفون کر کے ان تبدیلوں کے بارے میں بتایا کیونکہ زیادہ تر فوجی سازوسامان سعودی عرب سے ہی واپس لے جایا جارہا ہے۔
واضح ہے کہ امریکی فیصلہ انسانی ہمدردی کے تحت یاان ممالک میں امریکی افواج کے جرائم کو روکنے یا چینی اور روسی چیلینجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے نہیں کیا گیا تھا ، کیونکہ امریکی فورسز کو یہ چیلنج وسیع پیمانے پر پہلے سے بھی موجود تھے اور آئندہ بھی رہیں گے جبکہ ان کا اس خطے میں یہاں تک کہ سرد جنگ کے دوران اس کا کوئی اثر نہیں ہوا ،در حقیقت یہ فیصلہ اقوام عالم کی جانب سے امریکی تسلط اور جبر کے خلاف مزاحمت اور مخالفت کے دباؤ کے تحت کیا گیا ہے، یمن ، لبنان ، عراق ، افغانستان اور دنیا کے بہت سے دوسرے ممالک میں یہ بات واضح طور پر ظاہر ہوچکی ہے۔
تاہم اگر امریکہ خطے سے دستبرداری اختیار کرنے یا اپنی افواج کو کم کرنے کی کوشش کرنا چاہتا تھا تو اسے سردار سلیمانی کا قتل نہیں کرنا چاہیے تھا تاہ، وہ سوچ رہا تھا کہ سردار سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کو قتل کرکے وہ اپنے راہ سے بہت بڑی رکاوٹ کو دور کر لے گا لیکن اس کا الٹا ہوگیا عراقی پارلیمنٹ نے امریکی فوجیوں کو عراق سے انخلا کرنے کا فیصلہ منظور کیا۔
دوسری طرف عراق میں امریکی قابض افواج کو عراقی عوام کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے کے پابند ہونے کے لئے روزانہ حملوں کا سامنا کرنا پڑا، تو اب چینی اور روسی چیلنجوں پر توجہ مرکوز کرکے امریکہ سعودی عرب سے انخلا کا جواز کیسے پیش کرسکتا ہے، جب کہ سعودی عرب روزانہ کی بنیاد پر یمن کے حملوں کا نشانہ بن رہا ہے،اس ملک کی انتہائی اہم تنصیبات جیسے ہوائی اڈوں اور فوجی اڈوں نیز تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنایا جارہا ہے، واضح ہے کہ چیلنجوں کے خلاف یمنی عوام کی مزاحمت اس امریکی فیصلے کے پیچھےموجود ایک عنصر ہے، یمنی میزائلوں اور ڈرونز کے بعد امریکی فضائی دفاعی نظام جیسےٹاڈ اور پیٹریاٹ کی عدم صلاحیت بے نقاب ہوگئی، ان میزائلوں نے سعودی عرب کے سیکڑوں ارب ڈالر خرچ کروا دیے ،اس کے باوجد وہ سعودی عرب کے خلاف یمنی انتقامی کاروائی کو روکنے میں ناکام رہے۔
ایک بار جب خطہ کی اقوام نےریاستہائے متحدہ کے خلاف کھڑے ہونے کا فیصلہ کرلیا تو امریکہ کے پاس آج یا کل اس خطے سے مکمل طور پر دستبردار ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگاکیونکہ مزاحمت قوموں کا اسٹریٹجک فیصلہ ہے جس کو انہوں نے اسے پہلے سے کہیں زیادہ مضبوطی سے پکڑ رکھا ہے،خاص طور پر اس کے بعد جب امریکہ اور اس کے فوجیوں نے سردار قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس جیسے مزاحمتی تحریک کے جیالوں کا پاکیزہ لہو بہایا ہے۔