سچ خبریں:اسرائیل ٹائمز کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے اس مضمون کے مصنف ہیم آسا نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل کو کئی دہائیوں میں پہلی بار وجودی خطرے کا سامنا ہے۔
جی ہاں، دو لفظوں کا ایک لفظ، ایک اہم خطرہ جسے اب ہم سنتے ہی کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کرتے، لیکن اگر ہم اس کے حقیقی معنی کو سمجھ لیں تو ہمیں خوف سے کانپنا اور چیخنا چاہیے۔
وہ اپنے مضمون کے ایک اور حصے میں بتاتے ہیں کہ جب ہم کہتے ہیں کہ اسرائیل کے خلاف وجودی خطرے کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کو ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا جہاں اس کا بیرونی طور پر کوئی وجود نہیں رہے گا، اس مسئلے کو ہمیشہ ہمارے لاشعوری ذہن کے کنارے پر رکھنا چاہیے ۔
اس مصنف کے مطابق ان دنوں اور شاید پچھلی چند دہائیوں میں ہماری بے بسی ایک حیران کن بات ہے کیونکہ دوسری طرف یہ حکمران ٹولہ ہمارا نقصان کر رہا ہے اور ہمیں رومن سلطنت کے قیدیوں کی طرح اکٹھا کر کے ہر ایک کو مارنے کے لیے پھینک دیا ہے۔ دوسرے، شاید ہاتھ میں پاپ کارن کا یہ بینڈ ہمیں ایک سلطنت کا ایک چھوٹا سا پروفائل دے سکتا ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ اس ساری حماقت کی وضاحت کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ اسرائیلی جمہوریت کے اصول ہمیں فون پر الفاظ اور کپلان جیسی گلیوں کے ٹریبیونز میں ہونے والی سرگوشیوں کو دوبارہ گننے کی اجازت نہیں دیتے۔آئیے اپنے اصل عنوان کی حفاظت کریں۔