سچ خبریں:امریکی صدارتی انتخابات کے قریب آتے ہی یہ سوال اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ کامالا ہیرس یا ڈونلڈ ٹرمپ میں سے جو بھی نئی امریکی حکومت کی قیادت کرے گا، ایران کے ساتھ کیا رویہ اپنائے گا۔
پانچ نومبر 2024 کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں کامیاب ہونے والا امیدوار جنوری 2025 سے چار سالہ صدارتی مدت کا آغاز کرے گا اور خارجہ پالیسی کے اہم فیصلے کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں: کیا امریکی صدر کے بدلنے سے واشنگٹن کی صیہونی حمایت میں فرق آئے گا؟
ایران کے لیے ممکنہ پالیسیوں کے دو منظرنامے ہیں، جن میں ہریس کی کامیابی کی صورت میں جوہری معاہدے کی بحالی اور اقتصادی دباؤ کی حکمت عملی شامل ہیں، جبکہ ٹرمپ کی کامیابی کی صورت میں زیادہ سے زیادہ دباؤ کی ناکام پالیسی کو دوبارہ اپنانے کا امکان ہے۔
ہریس کا ممکنہ رویہ؛ دباؤ اور سفارتکاری کا امتزاج
1. جوہری معاہدے کی بحالی کی کوشش
ہریس ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں واپسی کی کوشش کر سکتی ہیں، وہ ایران کے جوہری، میزائل اور علاقائی سرگرمیوں پر پابندیاں لگانے کی حکمت عملی کو فروغ دے سکتی ہیں۔
2015 میں جوہری معاہدے کی حمایت اور 2018 میں ٹرمپ کی علیحدگی کو قومی سلامتی کے لیے نقصان دہ قرار دینے کے بعد، وہ قابل تصدیق ایرانی پابندیوں کے ساتھ دوبارہ شامل ہونے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
2. پابندیوں کی پالیسی
ڈیموکریٹس کے دور حکومت میں ایران پر زیادہ پابندیاں عائد کی گئی ہیں، اور ہریس کی حکومت میں یہ اقتصادی دباؤ جاری رہنے کا امکان ہے، تاکہ ایران کو مذاکرات پر مجبور کیا جا سکے۔
تاہم مشرق وسطی فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق اگر ہریس ایران کے ساتھ سفارتکاری کو جاری رکھنا چاہیں تو تیل کی برآمدات پر سختی کا امکان نہیں ہے۔
3. یورپی اتحادیوں اور خطے میں تنہائی کی کوشش
ہریس یورپی اتحادیوں اور عرب ممالک کے ساتھ مل کر ایران کو خطے میں تنہا کرنے کی حکمت عملی پر عمل کر سکتی ہیں، تاہم ایران کی بڑھتی ہوئی شراکت داری بریکس اور شنگھائی تنظیم جیسے اتحادوں میں اس پالیسی کو چیلنج کر سکتی ہے۔
ٹرمپ؛ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کا احیاء
اگر ٹرمپ دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں، تو زیادہ سے زیادہ دباؤ کی ناکام پالیسی کو دوبارہ زندہ کر سکتے ہیں۔
1. زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی اور پابندیوں کا تسلسل
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی چار سالہ صدارت کے دوران جوہری معاہدے سے علیحدگی اور زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی اپنائی جس کا مقصد ایران کی اقتصادی طاقت کو محدود کرنا اور فوجی و جوہری سرگرمیوں کو قابو میں رکھنا تھا۔
امکان ہے کہ وہ دوبارہ نفت برآمدات، پٹرولیم صنعت، اور مالی و اقتصادی اداروں پر پابندیاں عائد کریں گے، حالانکہ یہ پالیسی ماضی میں ناکام رہی تھی۔ ایلون مسک کے ساتھ حالیہ انٹرویو میں، ٹرمپ نے چین پر ایران سے تیل کی خریداری روکنے کے لیے دباؤ ڈالنے پر اپنی پالیسی کی تعریف کی۔
2. جوہری معاہدے میں واپسی کا انکار اور نیا معاہدہ
ٹرمپ نے اپنے دورِ صدارت میں یکطرفہ طور پر جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کی اور اگر دوبارہ منتخب ہوئے تو اس میں واپسی کا امکان کم ہے۔
وہ ایک ایسے ثانوی معاہدے کے خواہاں ہیں جو امریکہ کے مفادات کو ترجیح دے اور ایران کے جوہری، میزائل اور علاقائی سرگرمیوں پر سخت شرائط عائد کرے، حالانکہ اس کے کامیاب ہونے کے امکانات کم ہیں۔
3. ایران کے خلاف بین الاقوامی اور علاقائی اتحاد کی کوششیں
اگر ٹرمپ دوبارہ صدر منتخب ہوتے ہیں تو امکان ہے کہ وہ ایران کے خلاف علاقائی و بین الاقوامی اتحاد قائم کرنے کی کوشش کریں گے، تاکہ تحریموں اور پابندیوں کے ذریعے ایران کو تنہا کیا جا سکے۔ تاہم، ایران اور عرب ممالک کے تعلقات میں مثبت تبدیلی اور عالمی سطح پر مختلف معاشرتی و اقتصادی حالات کے باعث یہ ممکنہ طور پر کامیاب نہیں ہو گا۔
4. داخلی مخالفین کی حمایت اور فوجی اقدامات کی دھمکیاں
ٹرمپ حکومت میں ایران کی تبدیلی کے لیے داخلی مخالفین کی حمایت اور فوجی اقدامات کی دھمکیاں شامل ہو سکتی ہیں۔
مزید پڑھیں: امریکی حکومت کے بدلنے سے فلسطین پر ان کے ظلم میں فرق نہیں آتا: حماس
آخری بات
ٹرمپ کی ایران پالیسی ایک سخت معاشی دباؤ اور زیادہ سے زیادہ دباؤ کی حکمت عملی پر مبنی رہے گی، دوسری جانب اگر کمالا ہیرس منتخب ہوتی ہیں، تو سفارتکاری اور اقتصادی دباؤ کا متوازن انداز اپنانے کا امکان ہے، جیسا کہ بائیڈن حکومت کی پالیسی رہی ہے۔