🗓️
سچ خبریں:امریکہ اور چین کے درمیان محصولاتی جنگ حالیہ فیصلوں اور بیجنگ کے سخت ردعمل کے بعد ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے، جو نہ صرف دونوں ممالک کی معیشت بلکہ پوری دنیا کی معاشی استحکام کے لیے خطرہ بن گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ اور دنیا کے ساتھ تجارتی جنگ؛ اہداف اور نتائج
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2 اپریل 2025 کو تمام درآمدی مال پر 10 فیصد بنیادی محصول کا اعلان کر کے عالمی تجارتی کشمکش میں ایک نئی چنگاری بھڑکا دی، یہ فیصلہ، جسے یوم آزادی کا نام دیا گیا، نے وسیع پیمانے پر ردعمل کو جنم دیا۔
ٹرمپ کے اعلان کے بعد متعدد ممالک اور عالمی کھلاڑی محصولاتی جنگ سے شدید متاثر ہوئے، مثال کے طور پر یورپی یونین کو 20 فیصد محصولات کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ ویتنام (46 فیصد)، بنگلادیش (37 فیصد)، کمبوڈیا (49 فیصد)، ملائیشیا (24 فیصد)، چین (34 فیصد)، تائیوان (32 فیصد)، جاپان (24 فیصد) اور لیسوتھو (50 فیصد) جیسے ممالک شدید دباؤ میں آ گئے۔
ان ردعملوں میں چین کا ایک سو فیصد سے زائد محصولات کا جواب انتہائی سخت تھا، جس کے صرف ایک ہفتے بعد ٹرمپ نے 75 ممالک پر محصولات کو 90 دن کے لیے معطل کر دیا،تاہم، انہوں نے چین سے درآمدات پر محصولات نہ صرف منسوخ نہیں کیے بلکہ انہیں 125 فیصد تک بڑھا دیا،جواب میں چینی حکومت نے یکم اپریل کو امریکی مصنوعات پر محصولات 125 فیصد تک بڑھا دیے۔
یہ محصولاتی جنگ اس حد تک بڑھی کہ وائٹ ہاؤس نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے چینی مصنوعات پر محصولات کی حد 145 فیصد تک بڑھا دی، جس سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی۔
چین نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے 6 بڑی امریکی کمپنیوں کو غیر معتبر اداروں کی فہرست میں شامل کر دیا، جبکہ یورپی یونین اور ASEAN ممالک کے ساتھ اقتصادی تعاون بڑھانے کی کوششیں تیز کر دیں۔
یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان تجارتی جنگ نہ صرف معاشی بلکہ جغرافیائی سطح پر پھیل رہی ہے، جس کے اثرات عالمی نظم کو مختلف پہلوؤں سے متاثر کر سکتے ہیں۔
محصولاتی جنگ کا امریکہ اور چین کی معیشت پر اثر
حالیہ ہفتوں میں امریکہ اور چین کے درمیان محصولاتی جنگ نے دونوں ممالک کی داخلی معیشت پر نمایاں اثرات مرتب کیے ہیں۔ امریکہ میں معاشی نمو سست ہوئی ہے، اور ییل بجٹ لیب کی رپورٹ کے مطابق ملک کا حقیقی GDP پہلے چھ ماہ میں تقریباً نصف فیصد گر گیا ہے، یہ کمی درآمدی اخراجات میں اضافے، سپلائی چین میں خلل اور برآمدات میں کمی کی وجہ سے ہوئی ہے۔
اسی دوران امریکی صارفین بنیادی اشیاء بشمول الیکٹرانکس، کپڑے، گھریلو سامان اور کھلونوں کی قیمتوں میں اضافے کا سامنا کر رہے ہیں، جو پہلے چین سے کم قیمت پر درآمد کیے جاتے تھے۔ اوسطاً ایک امریکی خاندان کو سالانہ 800 ڈالر کا اضافی بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے۔
کچھ اہم صنعتیں بھی شدید متاثر ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر امریکی کسان، جن کا سب سے بڑا برآمدی بازار چین تھا، اب شدید طلب میں کمی اور مصنوعات کے ذخیرے کا سامنا کر رہے ہیں۔ سویا کی برآمدات، جو گزشتہ سالوں میں 13 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی تھی، اب اس سے نصف سے بھی کم رہ گئی ہے۔
آٹو موبائل انڈسٹری بھی نہ صرف درآمدی پرزوں کے اخراجات میں اضافے بلکہ چین میں برآمدی مارکیٹ سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے۔ اس کے نتیجے میں فورڈ اور جنرل موٹرز جیسی امریکی کمپنیوں نے اپنی پیداواری لائنیں بند کر دی ہیں یا ملازمین کی تعداد میں کمی کر دی ہے۔
مارکیٹ کے تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو 2025 کے آخر تک امریکی معیشت کساد بازاری کا شکار ہو سکتی ہے، اور اسٹاک مارکیٹ کے حالیہ گراوٹ نے ان خدشات کو تقویت بخشی ہے۔
واشنگٹن-بیجنگ تجارتی جنگ؛ چینی معیشت پر گہرے اثرات
چین کی معیشت بھی امریکہ کے ساتھ جاری تجارتی جنگ کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکی۔ معروف بینک گولڈمین ساکس کی تازہ رپورٹ کے مطابق، سال 2025 میں چین کی اقتصادی شرحِ نمو صرف 4 فیصد رہی، جو گزشتہ دو دہائیوں میں سب سے کم سطح ہے، اس گراوٹ کی بنیادی وجوہات میں امریکہ کو برآمدات میں کمی، گھریلو طلب میں کمی اور نجی شعبے کی سرمایہ کاری میں نمایاں کمی شامل ہیں۔
چینی کرنسی یوان کی قدر بھی 2007 کے بعد سے اپنی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے، جس کے باعث خام مال کی درآمد مہنگی اور پیچیدہ ہو گئی ہے، اس صورتحال نے چینی صنعتکاروں کو شدید مشکلات سے دوچار کر دیا ہے، خاص طور پر اُن لاکھوں مزدوروں کو جو برآمدی صنعتوں میں کام کرتے تھے۔ برآمدی آرڈرز میں کمی کے باعث کئی فیکٹریوں کو پیداوار کم کرنے یا ملازمین کو فارغ کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
چین نے اپنی برآمدات کو امریکہ پر کم انحصار رکھنے کے لیے آسیان ممالک، افریقی ریاستوں اور لاطینی امریکہ جیسے خطوں میں نئے بازار تلاش کرنے کی کوشش کی ہے، تاہم یہ متبادل اتنے سادہ نہیں، نئے ابھرتے ہوئے بازاروں کی صلاحیت محدود ہے، اور وہاں پہلے سے مختلف ممالک کے درمیان سخت مسابقت جاری ہے،اس وجہ سے چینی کمپنیاں اپنی مصنوعات کو کم قیمت پر فروخت کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں، جس سے اُن کے منافع پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔
ان اندرونی مشکلات کے ساتھ ساتھ بیرونی دباؤ نے چین کی اقتصادی پیش گوئیوں کو امریکہ کی طرح غیر یقینی بنا دیا ہے۔ ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اگر اس تجارتی جنگ کو ختم کرنے کا کوئی مؤثر حل نہ نکالا گیا تو نہ صرف چین بلکہ پوری دنیا کی معیشت کو شدید نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔
عالمی تجارت پر امریکی-چینی جنگ کے اثرات
امریکہ اور چین، دنیا کی دو سب سے بڑی اور ایک دوسرے سے گہرے طور پر جڑی ہوئی معیشتیں، جب تجارتی جنگ میں مصروف ہوئیں تو اس کے اثرات عالمی تجارت پر فوری طور پر نظر آنے لگے۔ اضافی ٹیرف نے اشیاء اور سرمایہ کے آزادانہ بہاؤ میں رکاوٹ ڈال دی، جس سے عالمی سطح پر سپلائی چینز — خاص طور پر ٹیکنالوجی، آٹوموبائل، دوا سازی اور صارفین کی اشیاء کے شعبے — میں عدم استحکام پیدا ہو گیا۔ اس صورتحال نے کثیر القومی کمپنیوں کو اپنی سپلائی چینز دوبارہ ڈیزائن کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
Short Link
Copied
مشہور خبریں۔
جرمن شہری بے وطن ہو سکتے ہیں: ڈونلڈ ٹرمپ
🗓️ 19 ستمبر 2022سچ خبریں: سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اوہائیو میں امریکہ
ستمبر
ٹرمپ کی سزا انتخاب لڑنے میں رکاوٹ نہیں
🗓️ 2 جون 2024سچ خبریں: گزشتہ جمعرات کو نیویارک کی عدالت نے امریکی صدارتی انتخابات کے
جون
اتحادی حکومت کے رہنماؤں کےخلاف دائر کرپشن کیسز عملی طور پر بند ہوگئے
🗓️ 18 ستمبر 2022اسلام آباد: (سچ خبریں) نئے ترمیم شدہ احتساب قوانین کے تحت عدالتوں
ستمبر
نیتن یاہو کو سکیورٹی حکام کا انتباہ
🗓️ 11 نومبر 2024سچ خبریں:صیہونی سکیورٹی حکام نے قابض وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کو
نومبر
ہرتزوگ نے اسرائیل کے خاتمے کے لیے 15ویں بار خطرے کی گھنٹی بجائی
🗓️ 7 مارچ 2023سچ خبریں:صیہونی حکومت کے سربراہ اسحاق ہرتزوگ نے کہا کہ اسرائیل کو
مارچ
گزشتہ ماہ کے دوران فلسطینیوں کے خلاف 260 انتظامی وارنٹ گرفتاری جاری
🗓️ 3 فروری 2023سچ خبریں:فلسطینی قیدیوں اور رہائی پانے والے افراد کے بورڈ نے اعلان
فروری
یورپی یونین روسی سرزمین پر حملے سے متفق نہیں
🗓️ 26 ستمبر 2024سچ خبریں: انٹرفیکس، برسلز کے حکام نے اعلان کیا کہ یورپی یونین
ستمبر
عمران خان کا پشاور میں 13 دسمبر کو ’عظیم الشان اجتماع‘ کا اعلان
🗓️ 6 دسمبر 2024 راولپنڈی: (سچ خبریں) پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیر
دسمبر