(سچ خبریں) پاکستان سمیت دنیا بھر میں منگل کے روز یوم شہداء کشمیر منایا گیا، کشمیر کے آزاد اور بھارتی مقبوضہ حصے میں بھرپور احتجاج کیا گیا، صدر مملکت عارف علوی نے کشمیریوں سے یکجہتی جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔
وزیراعظم نے مسئلہ حل ہونے تک بھارت سے کسی سمجھوتے سے انکار کیا، آزاد کشمیر کا الیکشن لڑنے والوں نے بھی اپنے اپنے دعوے کیے لیکن یہ بات کتنے لوگوں نے یاد دلائی کہ 13 جولائی یوم شہدائے کشمیر ہے کیا، یہ روایتی دن نہیں ہے۔
13 جولائی 1931ء کو سرینگر میں ایک کشمیری نوجوان عبدالقدیر کے خلاف مقدمے کی کارروائی کے دوران سینٹرل جیل کے باہر نماز ظہر کا وقت ہونے پر ایک نوجوان نے اذان دینا شروع کی، جوں ہی اس نے اذان شروع کی مہاراجا کے سپاہیوں نے فائرنگ کرکے اسے شہید کردیا، اس کے بعد یکے بعد دیگرے 22 افراد نے تھوڑی تھوڑی کرکے اذان دی اور شہادت کا رُتبہ پا گئے اور اذان مکمل کی۔
اس واقعے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی کا باقاعدہ آغاز ہوا، اس تاریخی حقیقت کو اجاگر کیا جائے تو بھارت کا سارا پروپیگنڈا غارت ہو جاتا ہے کہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے، پاکستان اس میں کسی قسم کی مداخلت کرکے کوئی تحریک چلوا رہا ہے یا تحریک حریت کشمیر کا پاکستان سے کوئی تعلق ہے۔
آزادی کشمیر کی تحریک توکو دراصل 1931ء سے جاری ہے۔ 22 افراد نے اذان مکمل کردی لیکن بعد میں آنے والے لوگ اب تک اس اذان کے جواب میں اقامت کہنے اور جماعت کھڑی کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے، جن لوگوں نے اذان مکمل کی تھی وہ نہتے تھے کمزور تھے ان کی پشت پر کوئی ریاست نہیں تھی، کوئی ایٹمی طاقت نہیں تو کوئی طاقتور فوج نہیں تھی لیکن وہ اذان دے سکتے تھے، انہوں نے جاں دے کر اذان مکمل کر دی، آگے کا مرحلہ اس اذان کے جواب میں نماز قائم کرنے کا تھا، خوش قسمتی سے پاکستان بھی بن گیا اور اللہ کی رحمت سے دنیا کی بہترین، منظم اور طاقتور ترین جذبۂ جہاد و ایمان کے ماٹو والی فوج اس کے پاس ہے۔
پاکستان ایٹمی قوت بھی بن چکا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم اب تک اقامت نہیں کہہ سکے، کشمیر کے لیے خون کا آخری قطرہ تک بہا دینے کے دعوے بھی ہو رہے ہیں، لیکن اس اذان کا جواب کسی نے نہیں دیا۔
1931ء کے مجاہدین نے جان کا نذرانہ پیش کیا اور رب کے حضور حاضر ہو گئے، ہمارے حکمران خود بھی طاقتور ہیں ان کی حکومتیں بھی طاقتور ہیں فوجیں بھی۔ دنیا کے دوسرے ممالک مسلم یا غیر مسلم اور انسانی حقوق کے اداروں کو شامل کرنے کی ضرورت بھی نہیں اور ان سے مدد مانگنے یا مسئلہ کشمیر حل کرانے کی درخواستیں کرنے کی ضرورت نہیں۔
قائداعظم نے اسے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا تو پھر پاکستان کی شہ رگ بھارت کے ہاتھ میں اس کے قبضے میں کیوں ہے۔ اسے چھڑانا خالص پاکستانی حکومت اور فوج کی ذمے داری ہے، بہت سارے معاملات میں فوج خود معاملات سنبھال لیتی ہے۔
دنیا بھر میں حکمرانوں، وزیروں اور صدر کی جگہ ہماری فوج کے اعلیٰ حکام جا کر مذاکرات اور معاہدے کر لیتے ہیں، ملک میں جب بھی مارشل لاء لگانا ہو تو فوج ملک کے مفاد اور ریاست کی بقا کی خاطر مارشل لاء بھی لگا دیتی ہے، لیکن کشمیر کے معاملے میں وہ حکومت کی طرف اور حکومت عوام کی طرف دیکھتی ہے، اولین اور بنیادی ذمے داری تو حکومت کی ہے کہ وہ فوج کو حکم دے کہ کشمیر کی آزادی کے لیے کارروائی کی جائے۔ فوج عمل نہ کرے تو اور بات ورنہ اسے اس حکم کی پابندی تو کرنا ہوگی۔
اگر ملک کی بقا کی خاطر اور ملک کے مفاد میں مارشل لاء لگ سکتا ہے تو ملک کی شہ رگ کے معاملے میں بھی ازخود نوٹس لیا جاسکتا ہے، چونکہ حکمران کچھ نہیں کر رہے تو پھر عوام خود نوٹس لیتے ہیں ان کی بڑی تعداد کو برساتی مینڈک قسم کی تنظیمیں اچک لیتی ہیں، جہاد کے نام پر کاروبار بھی ہوتا ہے اور خرابیاں بھی، لہٰذا حکومت پاکستان اور فوج کشمیر کے حوالے سے اپنی ذمے داری پوری کرے۔
یوم شہدائے کشمیر منانا، ہڑتال کرنا، اخلاقی سیاسی اور سفارتی حمایت کا اعلان کرنا اس وقت تک بے معنی رہے گا جب تک 1931ء کے شہدا کی اذان کا جواب نہیں دیا جاتا، افسوس ناک امر یہ ہے کہ جو لوگ کشمیر کے لیے جدوجہد کر رہے تھے انہیں پابند سلاسل کر دیا گیا ہے، کشمیر کے لیے آواز کو دبایا نہیں ابھارا جانا چاہیے۔