سچ خبریں: امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کے شیئرز کی قیمت میں، شہید اسماعیل ہنیہ اور شہید فؤاد شکر کے قتل سے ایک ہفتہ قبل، تیزی سے اور جذباتی طور پر اضافہ ہوا، جو واشنگٹن کے ان جرائم میں ملوث ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے معزز مہمان شہید اسماعیل ہنیہ اور حزب اللہ کے فوجی کمانڈر شہید فؤاد شکر کی شہادت انتہائی اہم واقعات تھے، جن کا مختلف پہلوؤں سے تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ مزاحمت کے دو بڑے کمانڈروں کا بیک وقت قتل اسرائیلی-امریکی مجرم گروپ کی ایک منظم منصوبہ بندی کی نشاندہی کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسماعیل ہنیہ کو تہران میں کیوں شہید کیا گیا؟روسی وزیر خارجہ کی زبانی
شہید فؤاد شکر کا قتل منگل 30 جولائی کی شام کو اور شہید ہنیہ کا قتل بدھ 31 جولائی 2024 کی ابتدائی صبح میں ہوا۔ سیکیورٹی اور سیاسی ماہرین کا ماننا ہے کہ نیتن یاہو نے اپنے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران، جو 22 سے 28 جولائی تک ہوا، امریکہ کو ان حالیہ قتلوں کے فیصلے سے آگاہ کیا تھا اور یہ قتل امریکہ کی ہم آہنگی کے ساتھ انجام دیے گئے ہیں لیکن کیا اقتصادی اعداد و شمار کے ذریعے بھی اس بات کا کوئی ثبوت حاصل کیا جا سکتا ہے؟
امریکی اسلحہ ساز بڑی کمپنیوں کے شیئرز کی قیمتوں میں شہید ہنیہ اور شہید فؤاد شکر کے قتل سے ایک ہفتہ قبل تیزی سے اور جذباتی طور پر اضافہ ہوا،کیا ان کمپنیوں کے شیئرز کی قیمت میں یہ اچانک اضافہ ان قتلوں سے متعلق تھا؟
زیادہ تر سیاسی، فوجی اور سیکیورٹی واقعات کا آخرکار اثر قیمتوں اور خدمات پر پڑتا ہے۔ معیشت اور سیاست کے درمیان ایک دو طرفہ براہِ راست تعلق ہوتا ہے جسے دونوں فریقوں میں ہونے والی تبدیلیوں کا تجزیہ کرکے سمجھا جا سکتا ہے۔ اس اثرات کی ایک واضح مثال، شہید ہنیہ کے قتل اور اسلامی جمہوریہ ایران کے اس جرم کا سخت انتقام لینے کے فیصلے کے بعد عالمی اسٹاک مارکیٹوں میں ہونے والی گراوٹ ہے۔
ایسے اشاریے جیسے سونے، تیل یا ڈالر کی قیمت، چونکہ دنیا بھر میں ان کے بے شمار تاجر ہوتے ہیں، مسلسل بدلتی اور اتار چڑھاؤ کا شکار رہتی ہیں اور ایک چھوٹا یا محدود گروپ ان کی قیمتوں پر کوئی سنجیدہ اثر نہیں ڈال سکتا۔ تاہم، کمپنیوں کے شیئرز کی قیمتیں چند بڑے اور اہم سرمایہ کاروں کے فیصلوں پر منحصر ہوتی ہیں۔
خاص طور پر فوجی اور اسلحہ ساز کمپنیوں کے شیئرز میں یہ معاملہ زیادہ واضح ہوتا ہے۔ لاکہیڈ مارٹن یا ریتھون جیسی کمپنیوں کے شیئرز میں ہونے والی تبدیلیاں مکمل طور پر ان خبروں اور خفیہ معلومات پر منحصر ہوتی ہیں، جو صرف چند بااثر اور طاقتور سرمایہ کاروں کو ملتی ہیں۔
اب ہم یہ جائزہ لینا چاہتے ہیں کہ شہید اسماعیل ہنیہ اور شہید فؤاد شکر کے قتل سے ایک ہفتہ قبل کون سے اہم واقعات پیش آئے، جن کی وجہ سے یہ تبدیلیاں ہوئیں، خاص طور پر یہ کہ ان کمپنیوں کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک ساتھ اضافہ ہوا۔
اس سلسلے میں چند اہم واقعات قابل غور ہیں۔
یوکرین جنگ ؛ پہلا امکان یوکرین جنگ ہے۔ اس جنگ میں بڑی مقدار میں اسلحے کے استعمال کی وجہ سے اسلحہ ساز کمپنیوں کی مارکیٹ میں یقینی طور پر تیزی آئی ہے، لیکن یوکرین کی جنگ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے اور یہ اس مخصوص مدت میں کمپنیوں کے شیئرز کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے کا سبب نہیں بن سکتی۔
غزہ کے مظلوم عوام کے خلاف جنگ ؛ دوسرا امکان اسرائیل کی غزہ کے مظلوم عوام کے خلاف جنگ اور امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو اسلحہ کی فراہمی ہے۔ تاہم، یہ جنگ کئی ماہ سے جاری ہے اور حالیہ قتلوں سے ایک ہفتہ قبل اس جنگ میں کوئی اہم تبدیلی نہیں آئی۔
عالمی انٹرنیٹ میں خلل ؛ تیسرا امکان عالمی انٹرنیٹ میں خلل ہے، جو ونڈوز کے ایک سیکیورٹی سافٹ ویئر کی خراب اپڈیٹ کی وجہ سے ہوا۔ یہ مسئلہ جمعرات 28 تیر بمطابق 18 جولائی سے شروع ہوا تھا اور صرف اسلحہ ساز کمپنیوں سے متعلق نہیں تھا۔ اس کے علاوہ، چند دن کی انٹرنیٹ خرابی کی وجہ سے اسلحہ ساز کمپنیوں کے شیئرز کی قیمت میں اضافہ بالکل بے معنی ہے۔
امریکہ کی جانب سے سعودی عرب کو 2.8 بلین ڈالر کے نئے فوجی اسلحے کی فروخت ؛ چوتھا امکان امریکہ کی جانب سے سعودی عرب کو 2.8 بلین ڈالر کے نئے فوجی اسلحے کی فروخت کی اجازت کی خبر ہے۔ یہ خبر 23 جولائی کو امریکہ کی ڈیفنس سیکیورٹی کوآپریشن ایجنسی (DSCA) کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی، جسے کئی خبر رساں اداروں، بشمول ترک خبر رساں ایجنسی اناطولی نے شائع کیا اور اگلے روز ایرانی خبر رساں اداروں نے اس کا ترجمہ اور اشاعت کی۔
مستند دلائل کی بنیاد پر مریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک ہفتہ قبل ہونے والا جذباتی اور تیز اضافہ حالیہ قتلوں سے پہلے کی خبروں سے کسی صورت منسلک نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ امریکہ کی جانب سے دیگر ممالک کو اسلحے کی فروخت کوئی نیا عمل نہیں ہے۔
اس جیسے معاملات میں جہاں مالی تبادلے کی مقدار اس سے کہیں زیادہ رہی ہے اور یہاں تک کہ مرکزی ٹھیکیدار کا نام بھی ذکر کیا گیا ہے، کبھی اسلحہ ساز کمپنیوں کے شیئرز میں کوئی خاص تبدیلی نہیں دیکھی گئی۔ ایسی مثالیں بے شمار ہیں اور ان سب کا جائزہ اس رپورٹ کی حدود سے باہر ہے۔ تاہم، چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں۔
ایک مثال کے طور پر 2 اگست 2022 کو DSCA کی ویب سائٹ پر ایک خبر شائع ہوئی جس میں سعودی عرب کو 3 بلین ڈالر کی مالیت کے پٹریاٹ ایئر ڈیفنس سسٹم کے میزائل فروخت کرنے کا ذکر تھا۔ اس معاہدے کا مرکزی ٹھیکیدار ریٹھون کمپنی کا ایک حصہ تھا، جو ماساچوٹس کے شہر توکسبری میں واقع ہے۔
ایک اور مثال کے طور پر، 26 جنوری 2024 کو DSCA کی ویب سائٹ پر دو خبریں شائع ہوئیں۔ ان میں سے ایک خبر یونان کی حکومت کو تقریباً 8.6 بلین ڈالر مالیت کے 40 F-35 جنگی طیارے اور دیگر اشیاء کی فروخت کے بارے میں تھی۔ اس معاہدے میں لاکہیڈ مارٹن ایوی ایشن کمپنی، جو فورٹ ورتھ، ٹیکساس میں واقع ہے، کو ایک مرکزی ٹھیکیدار کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔
دوسری خبر ترکی کو 40 نئے F-16 طیارے فروخت کرنے اور ملک میں موجود 79 F-16 طیاروں کی تجدید کاری کے بارے میں تھی، جس کی مجموعی مالیت تقریباً 23.0 بلین ڈالر تھی۔ اس معاہدے کا مرکزی ٹھیکیدار لاکہیڈ مارٹن کمپنی تھی، جو گرین ویل، شمالی کیرولائنا میں واقع ہے۔
اس حقیقت کے باوجود کہ 26 جنوری 2024 کو DSCA کی ویب سائٹ پر دو اہم معاہدوں کی خبریں شائع ہوئیں، جن کی مجموعی مالیت تقریباً 31.6 بلین ڈالر تھی اور دونوں معاہدوں میں لاکہیڈ مارٹن کا نام بطور مرکزی ٹھیکیدار درج تھا، تاہم نیچے دی گئی تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس تاریخ کے آس پاس لاکہیڈ مارٹن کے شیئرز کی قیمت میں کوئی قابلِ ذکر اضافہ نہیں ہوا۔
ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں، اور ان کا تجزیہ کرتے وقت کئی نکات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے، جو اس رپورٹ کی حدود سے باہر ہیں۔ مثال کے طور پر، امریکی اسلحہ ساز کمپنیاں بہت سی ہیں اور ان کے مختلف ذیلی ادارے مختلف ریاستوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف، ان کمپنیوں کی معلومات تک رسائی سختی سے محدود ہے۔ نیز، کچھ کمپنیاں، جیسے بوئنگ، صرف اپنے محدود پیداوار کو فوجی شعبے میں مختص کرتی ہیں۔
یہ تمام عوامل اسلحہ ساز کمپنیوں کے شیئرز کی قیمتوں میں تبدیلیوں کا درست تجزیہ کرنا مشکل بنا دیتے ہیں۔ تاہم، جو بات یقینی ہے، وہ یہ کہ امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کے شیئرز کی قیمتوں میں شہید اسماعیل ہنیہ کے قتل سے ایک ہفتہ قبل ہونے والی جذباتی اور تیز رفتار اضافے کا 2.8 بلین ڈالر کے سعودی عرب کو فوجی اسلحہ فروخت کی خبر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن اس قیمت میں بھاری اور اچانک اضافے کے لیے ایک منطقی وجہ ضرور موجود ہونی چاہیے۔
سب سے معقول وجہ جو ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ بنیامین نیتن یاہو نے اپنے امریکہ کے دورے کے دوران، امریکی حکام کو شہید ہنیہ کو تہران میں اور شہید فؤاد شکر کو لبنان میں قتل کرنے کے اپنے فیصلے سے آگاہ کیا۔ یہ ایک مکمل طور پر معقول اور منطقی امکان ہے، کیونکہ یہ قتل خلیج فارس کے علاقے میں ایک بہت بڑے تناؤ کا سبب بن سکتے ہیں، اور نیتن یاہو جانتا تھا کہ امریکہ کے ساتھ ہم آہنگی کے بغیر وہ اس قدر بڑے خطرے کا سامنا نہیں کر سکتا۔
جنگ، امریکہ میں طاقت اور دولت کے مالکان کے لیے زیادہ منافع کمانے کا ایک موقع ہوتا ہے۔ ان کے لیے جنگ کا مطلب زیادہ فوجی اسلحہ کی فروخت ہے، اور یہی وجہ اسلحہ ساز کمپنیوں کے شیئرز کی قیمت میں اضافہ کرتی ہے۔ صہیونی لابیاں اس بات سے بخوبی واقف تھیں کہ مذکورہ افراد کے قتل اور مشرق وسطیٰ میں بڑے فوجی تناؤ کی صورت میں وہ فوجی اسلحہ کی فروخت سے بہت زیادہ آمدنی حاصل کر سکتی ہیں۔
جب انہیں اس بات کا علم ہوا، تو وہ اپنی لالچ اور حرص پر قابو نہ رکھ سکے اور بڑی تعداد میں ان کمپنیوں کے شیئرز خریدنے کے لیے تیزی سے آگے بڑھے، جس کا مقصد مزید شیئرز پر قبضہ کرنا تھا۔ اس کے نتیجے میں، دیگر افراد کو بھی اس کا پتہ چلا اور اچانک بڑی مقدار میں پیسہ ان کمپنیوں کے شیئرز کی خریداری کی طرف چلا گیا، جس نے امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کے شیئرز کی قیمت میں تیزی سے اضافہ کر دیا۔
مزید پڑھیں: کچھ شہید اسماعیل ہنیہ کے بارے میں
اس رپورٹ کے اختتام پر یہ کہنا ضروری ہے کہ زیادہ تر سیاسی، فوجی، اور سیکیورٹی واقعات کا اثر اقتصادی چارٹس پر واضح طور پر نظر آتا ہے۔ مختلف چارٹس، جیسے ڈالر، تیل، سونے کی قیمت، اور دنیا بھر کی فوجی و غیر فوجی کمپنیوں کے شیئرز کا تجزیہ کرکے مستقبل میں کچھ اقتصادی، سیاسی، اور حتیٰ کہ فوجی واقعات کے وقوع پذیر ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ ایک اہم ذمہ داری ہے، جو متعلقہ اداروں اور ماہرین کے کندھوں پر ہے۔